شاہ جو رسالوShah-jo-Risalo) )-نظر
سےتحریر: سفر ندیم زہری
شاہ عبدالطیف بھٹائیShah Abdul Lateef Bhitai) )جن کا شجرہ نسب جاکر اہلبیت سے جاکر ملتاہے۔ سندھ کے عوام کے ساتھ ساتھ میں بھی خادم سگ اہل بیت ہوں ۔آل رسول ہونے کی خاطر بھی شاہ عبدالطیف بھٹائی بڑا مقام رکھتے ہیں۔ ویسے بھی دیگر صوبوں میں اکثر محافل میں سنتے ہیں بلکہ بلوچستان میں کہ سندھ میں صوفی عزم ماننے والے بہت ہیں۔ صوفیانہ فکر تعلیم شاہ سائیں کی رگ رگ میں دوڑتا ہے۔ انکی شاعری کی کتاب شاہ جو رسالوShah-jo-Risalo))اسکی بہترین مصدق نشانی ہے۔ صوفی عزم صرف رب تعالیٰ اسکےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحاب کرام صحابہ کرام کی تعلیمات کا حامل رہتا ہے تصوف بنیادی طور پر ظاہری باطنی صفائی جس میں رب کی ذات مقدس کےسوا کسی اور کی جگہ خواہش جگہ نہ بناسکے۔ شاہ صاحب وحدہ لاشریک وحدۃ والجود ذات اور مسلک کے ماننے والے تھے سندھی شاعری میں صرف اور صرف سب سے پہلے اول آخر نام اور محبت کمانے والا ہستی سندھ کے شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اپنی اعلی روایات بلند قدروں میں آب حیات کا درجہ رکھتے ہیں ۔گویا سندھی زبان میں انکی کتاب شاہ جو رسالو دلوں کو کیف سرور آب حیات پلانے سے کم نہیں۔ ادبی قبیلے ہوں سیاسی قبیلے قومی قبیلے مذہبی قبیلے گویا سندھ کے اندر رہنے والے تمام طبقات کی لبوں پر زبان پر شاہ سائیں کا نام اور مٹھاس رہتی ہے۔ سندھی زبان بولنے والے سندھی سمجھنے لکھنے والے سندھ میں رہنے والے تمام شاہ سائیں کے لفظوں کے مرید صوفی عزم کے پیروکاری سے باہر نہیں نکل سکتے۔ گزشتہ سال بڈھل سائیں کے آستانے پر شکارپور سندھ میں انکے فرزندان کی جانب سے پرزور تکلف عشائیہ میں شریک ہوئے تو انکے ہاں صوفی عزم کے بارے معلومات لیے کہ کس طرح صوفی پیروکار زندگی گزارتے ہیں۔ تو انہوں نے میرے ہاتھوں میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کی تصنیف شاہ جو رسالو(Shah-jo-Risalo) اردو مترجم میں تھما دیا کہ مجھ جیسے شخص کو شاہ صاحب رسالو ہی کافی ہے۔ ویسے بھی سندھ کے عوام سندھی بھائی شاھ صاحب کو انکی شاعری انکی صوفی عزم درویشانہ صفات کی بدولت محبت عزیز رکھتے ہیں۔ ساتھ ساتھ انہیں صوفی کامل بزرگ کامل مومن بھٹکے انسان کو راج خدا پر تلقینت والے ہستیوں میں شمار صف متن فہرست کہتے ہیں۔ شاہ سائیں کے اس رسالے کی شاعری کے اندر انکے استعمال کردہ استعارے گویا وہ اپنی سرزمین سے اور بولی سے اتنا محبت رکھنے والے تھے کہ انہوں نے سندھ کی سرزمین کو اپنا کعبہ سندھ پرستی کو وطن پرستی کو سب سے زیادہ اہمیت دینے والے پہلے سندھی شاعر گزرے ہیں۔ انکی شاعری ہی مختلف نوعیت کی شاعری میں پڑھنے کو ملا گویا انکی تاریخ پیدائش کے مطابق اس وقت سندھ ہند کا بٹوارا تک کی وجود کی قیاس آرائیاں بھی نہیں ہوئے ہونگے بلکہ اس وقت سندھ ہند میں بھی فارسی کا دور تخت راج رہا ہوگا خانقاہوں درسگاہوں درباروں دفاتر خط کتابت حتہ کہ علوم فنون کا شہرت بھی فارسی زبان رہا ہوگا مگر سندھی زبان گویا گمنامی کی عالم میں زندگی بسر کررہی ہوتی ہوگی۔ مگر شاہ عبدالطیف بھٹائیShah Abdul Lateef Bhitai) )سرکار نے اس وقت کے فارسی شعرا فارسی زبان کو اہمیت دینے کے بجائے سندھی شاعری سندھی استعاروں کو زیر استعمال لائے ہیں۔ قطعات نظم شہر آشوب لیلی مجنوں کی داستانیں دلربائی جدائی چاند کو تشبہ دے کر آسمان کے آنسو بہانے صنم معشوق کی قدامت رخساروں پر شبنمی اوس موتی گلابی پنکھڑیوں زمین آسمان ایک کرنےمجازی خدابنانے کفر کو تلاش کرنے کے بجائے انہوں نے اپنی شاعری میں سندھ کی مٹھاس سندھی بولی سندھی زبان سندھ کی ثقافت کلچر یہاں کی مزدور کسان ہاری تھر کی بدحالی جنگلوں میں بھٹکے لوگوں کی زندگی کے بارے تعلیم کی کمی تعلیم کی اہمیت سرداروں کی بھوتاروں کی ظلم کی حقائق وہ تمام موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ دیوان بناچکے ہیں جو آج بھی سندھ سرزمین کی بنیادی مسائل کی حقیقی داستان ہیں۔ گویا تمام طبقات کی عکاسی کرتی ہیں شاھ صاحب کی شاعری گویا سندھ سرزمین پر بسنے والے محکوم مظلوم خواتین بچے ضعیف جوان سب اپنی قلب میں بسانے کے حامل ہیں شاھ سائیں تو ایسے استعارے اپنی شاعری میں بیان کیے ہیں کہ گویا انہوں نے زہر سے شہد نچوڑ لیا ہو۔ لفظوں کی سلیقے میں تشنگی میں گویا شراب سے غنودگی پیدا کررہا ہو حساس جذبات کے شعلے بھڑکانے کے ساتھ ساتھ شعور کی آگ بھڑکانے پر تیل کی طرح الفاظ ملتے ہیں انکی شاعری کبھی احتجاج کبھی محبت کبھی بغاوت کرتی ہے شاہ سائیں کی شاعری کی مثال اور کیا دی جاسکتی ہے کہ انگریزی دانشور بھی لکھنے تبصرے پر مجبور ہوچکے تھے۔ اگر ہم مزید باریک بینی سے شاہ جو رسالو(Shah-jo-Risalo) کی مطالعہ کریں تو صوفی عزم کی گہری نشانیاں ملتی ہیں صوفی عزم شاہ سائیں کی کتاب میں صوفی عزم کی پہلی نشانی اپنی سرزمین سے محبت کسی بھی صوفی عزم پیروکار کے لیے اسکی سرزمین دھرتی کعبے سے کم نہیں ہوتی۔ روشنی کی کرنیں روح کی تسکینیت وجدانی کیفیت ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ صوفی عزم کو بیان کرنے میں گویا کوئی زبان مکمل طور ہنر مندی سے اترتی نہیں ہے کیونکہ صوفی عزم وہ مقام ہے جسکی زبان روح ہوتی ہے اور شاعری اسکی علامت ہوتی اور شاھ رسالو میں یہی جذبات احساسات نظر آتے ہیں اس قسم کی روحانی تجلی وجدانی کیفیت دلوں کو دلوں سے ملانے کے لیے تصوف کو سچائی انسانی جذبوں میں شاعری کے توسط سے پرکھنے کے لیے شاہ صاحب کی شاعری بھی کم نہیں۔ شاہ سائیں کی تصنیف شاہ جو رسالوShah-jo-Risalo) )میں مختلف نوعیت کی شاعری میں پایا کہ کائنات میں کوئی بھی چیز منفرد نہیں منفرد چیز انسانی ذہنوں میں پرورش پاسکتی ہے ۔جبکہ چیزوں کی شکل صورت نہیں تب تک انکی پہچان خدوخال انکی جستجو خیال میں لانا مشکل کام ہے۔ اگر رب تعالیٰ باری کی ذات مقدس کائنات کی چیزوں کی طرح ہوتی تو وہ ہماری تصور کے دائرے میں داخل ہوتی مگر وہ ذات ایک حقیقت ہے جو انسانی عقل فہم سے بالاتر ہے کس طرح جان کو جسم سے عقل کو روشنی خوشی کو دل سے خوشبو کو سو گھنے والی حس سے الفاظ کو زبان سے ادا کرنے وغیرہ وغیرہ کا ایک خالص تعلق ہے ۔شاہ عبدالطیف بھٹائی(Shah Abdul Lateef Bhitai) کا بنیادی مسلک ،سنی ،بریلوی، دیوبندی اہل تشیع اور وہابی نہیں بلکہ وہ تصوف ہی کے کامل راہ مسلک تھے ۔
شاہ جو رسالو ۔نظر سے تحریر: سفر ندیم زہری Article by Safar Nadeem Zehri Shah-jo-Risalo Nazer se |