نظم دیکھا ہے میں نے مختار سہتو Nazam by Mukhtiar Sehto Dekha he mene
مختار سہتو
نظم
دیکھا ہے میں نے
بریزر سے نکلے ہوئے موبائل فون کو
مچھلی کی طرح تڑپتے ہوئے۔
دیکھا ہے میں نے
نمک جتنے لوگوں کو
نماز پڑھنے کے لیئے
اور آٹے جتنے لوگوں کو
رفع حاجت کے لیئے
مسجد جاتے ہوئے۔
دیکھا ہے میں نے
ہر شخص کے اندر میں ایک ترازو
جس کے ایک پلڑے میں
خودکشی ہے
اور دوسرے پلڑے میں
صبر کا میٹھا پھل
جو امید کے لا امتناعی
صحرا کی طرح ہے۔
دیکھے ہیں میں نے
مقناطیسی کشش رکھنے والے
بدن کے وہ اہرام
جو نگاہ پڑتے ہی
سانس روک دیتے ہیں۔
دیکھے ہیں میں نے
وہ حسیں چہرے
جن کو پالینے والوں کے پاس
دل تک نہ تھا
دیکھی ہیں وہ فلمیں
جن میں پامال ہوئے ہوئے جسم
ذہن کےمیوزم میں بھی
کبھی بوڑھے نہیں ہوتے۔
دیکھی ہیں میں نے
پول میں لٹکتی ہوئی
پتنگوں جیسی لڑکیاں
جن کے اڑانے والوں ہاتھوں کو
محض ملکیت بچانے کے لیئے
جسم دے دیئے گئے۔
وہ سمندر بھی دیکھے میں نے
جو اپنے گھڑوں میں
پانی بھرنے جا رہے تھے
دیکھے ہیں وہ سانحات
جو تارکول کی طرح میرے من میں
پگھل کر پلٹتے رہتے ہیں۔
میں نے ایسے لوگ بھی دیکھے
جو ہنس ہنس کر
اپنے آنسوْں کو ہجرت کروادیتے ہیں۔
دیکھے ہیں میں نے حالات کے ہاتھوں
بدلتے ہوئے چاند لوگ
دیکھی ہیں سورج آنکھیں
جن کی یاد کی روشنی مجھے
کبھی بیوہ کی چوڑی تو کبھی
جست کا وہ تھال بنا دیتی ہے
جس پہ کنواری انگلیاں
کورس میں گاتے ہوئے
اپنے جسم کے بادشاہ
کے بارے میں سوچتی ہیں۔