ارتقا اور اکانومی تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Irtqa aur economy(Evolution and economy)

ارتقا  اور اکانومی

(Evolution and Economy)
تحریر: عمران کمبھر

اس  وقت  سائنس     کی حالیہ تک کی تحقیق کے مطابق کرہ ارض پہ غالباً8.7 ملین  جاندار مخلوقات ہیں۔ ہر جاندار کو اپنے وجود کے بقا  اور ترقی کے لیئے انہیں توانائی حاصل کرنے کہ  لیے غذائیت،نسل افزائش  (Reproduction)کہ لیے جنسی عمل، اور ماحول سے مطابقت(Adaptation) کے لیے پناہ (Shelter)کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر توانائی، جنسی عمل اور پناہ کہ لیے  مادی   وسائل درکار ہوتےہیں۔اور جاندار ہر وقت  انہی مادی   وسائل کی حاصلات کی جستجو (Struggle for resources)میں رہتے ہیں۔جاندارون کی یہ جستجو ایک  معروضی نظام میں کارفرما ہوتی ہے جسے ایکو سسٹم کہتے ہیں ۔ایکو سسٹم(Ecosystem)    سادہ  و  پیچیدہ جاندارون اور اسکے کہ معروضی  طبعی ماحول  اور اسکے مابین تعلق کے  نظام کو  کہا جاتا ہے۔ ایکو سسٹم (Ecosystem)    میں دو اقسام کہ اجزاء پائے جاتے ہیں۔ایک جاندار اجزاء   (Biotic components)یعنی ایسے اجزاءجو  حیات ہوں ، زندگی  رکھتے ہوں مثلاً  انسان، جانور اور پودے وغیرہ۔دوسرے غیرجاندار اجزاء (Abiotic components) یعنی ایسے اجزاءجو  حیات نہ رکھتے ہوں ، بے جان ہوں مثلاً  پانی، مٹی، ہوا  وغیرہ۔ سادہ  اورپیچیدہ جاندارون اور اسکے کہ معروضی  طبعی ماحولیات   کے مابین تعلق کے   علم کو  ایکالاجی (Ecology)  کہا جاتا ہے۔ اسے قدرت کی معاشیات یا ایکو سسٹم کی بائیولاجی بھی کہتے ہیں۔  ایکو سسٹم میں   ایک جاندار سے دوسرے جاندار تک مادہ  اور توانائی  غذائیت کی شکل  میں ایک ترتیب کے ساتھ  منتقل ہوتےہیں۔اس منتقلی کی ترتیب کو غذائی زنجیر (Food chain) یا غذائی جال (Food web)کہا جاتا ہے۔ ایکو سسٹم  کی غذائی زنجیر           (Food chain)  یا غذائی جال (Food web) میں  جانداروں کو مخصوص لیولز پہ رکھا گیا ہے جس کو ٹرافک لیولز (Trophic levels)کہتے  ہیں ۔ پہلی لیول  کے جانداروں کو پیدا کرنے والےجاندار (Producers) کہا جاتا ہے جو کہ سبز پودے  (Green plants)ہیں۔ پہلی لیول  کے جانداروں کو کھانے والے جانداردوسری لیول  میں آتے ہیں جسے  سبزہ خور (Herbivores) کہا جاتا ہے ۔   دوسری لیول  کے جانداروں یعنی سبزہ خور وں کو کھانے والے جاندار تیسری لیول میں آتے ہیں جسے پہلے درجے کے گوشت خور (Primary Carnivores) کہا جاتا ہے ۔ پھر تیسری لیول  کے پہلے درجے کے گوشت خور جانداروں  کو کھانے والے جاندار چوتھی لیول میں آتے ہیں جسے  دوسرے درجے کے گوشت خور (Secondary Carnivores) کہا جاتا ہے ۔ مذکورہ  دوسری، تیسری اور چوتھی لیول کہ جانداروں کو صرف کرنے والے جاندار(Consumers)   کہا جاتا ہے۔ٹرافک لیولز   کی ترتیب کوئی قطعی چیز نہیں ہے۔جیسے کچھ گوشت خور سبزہ خور بھی ہوتےہیں جنہں  Omnivores کہا جاتا ہے ،جس میں انسان بھی شامل  ہے جو کہ ایک Omnivores  ہے۔ ایک الگ ٹرافک لیول بھی ہے جس میں توڑنے والےجاندار  (Decomposers)   آتے ہیں مثلاً بیکٹیریا (Bacteria)اور فنجی (Fungi) وغیرہ۔نامیاتی ارتقا (Organic evolution)   کہ اعتبار سے اس  غذائی زنجیر           کے مطابق  انسان ایک  صرف کرنے والا  جاندار(Consumers)   ہے ۔ مگرتاریخ  کہ دریچہ میں جھانکنے سے پتا چلتا ہے کہ تاریخی   اعتبار سے   مخصوص  لازمی حالات میں  انسان اپنی نامیاتی  ارتقا کہ اندر فطرت کی طرف سے محنت کا قدغن لگ جانے کے نتیجے میں   اوزارساز جانور بن گیا اور فکر یا تجریدیت(Abstraction) نمودار ہوئی۔جس سے انسانی   دماغ   کہ اندر ذہانت  کا جنم ہوا۔دنیا کو سمجھنے کی ضرورت زندہ رہنے  کی ضرورت سے پیوستہ ہے۔اس لیئے فکر کہ آ جانے سے انسان کو دنیا سمجھنے میں آسانی ہوئی۔ انسانی ارتقا (Evolution) میں یہ ایک معیاری چھلانگ تھی ۔

بقول ماہر رکازیازت Lewis Binford (Paleontologist)کے:

"ہماری نسل انسانی (Species)کی آمد بتدریج اور رفتہ رفتہ وقوع پذیر ہونے والے عوامل  کہ نتیجے میں  نہین بلکہ ایک چھوٹے سے عرصے میں  دھماکے کہ ساتھ ہوئی۔"

جب سے انسان اوزارساز جانور بنا ہے اور تجریدیت  کی شروعات ہوئی  ، تب سے انسان  صرف کرنے والے جاندار(Consumers)    سے ساتھ ساتھ پیدا کرنے والاجاندار (Producers) بن گیا  اور پیداواری عمل(Production) کا آغاز ہوا ۔اسی طرح انسانی زندگی میں صرف کرنے (Consumption)  کے ساتھ ساتھ  پیدا کرنے (Production) کا عمل پروان چڑھا ۔انسان کا    بڑھتا  ہوا یہ  دوہرا کردار(Role)   ارتقا(Evolution) کی منزل میں ایک بڑا  انقلاب ثابت ہوا۔   صارفیت  (Consumption) اور پیداوار کے عمل (Production)کے نتیجے میں انسانی محنت سے مجسم  ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کے تبادلے کا نظام(Exchange system) قائم ہوا  جو محنت کی تقسیم(Labour division) کی  مزید ترقی  کی ضرورت سے  مضبوط ہوتا  گیا۔پھر  اشیاء کے تبادلے کےاس نظام اور محنت کی تقسیم نے انسانی ارتقا  میں  ایک ایسی تنظیم  کو جنم دیا جس نے قدرت کے کارخانے میں نسلِ انسان کو ارتقا میں ترقی کے اعلیٰ درجے پر پہنچا دیا۔ ارتقا  میں   ترقی کے   اس  اعلیٰ درجے  کی تنظیم کو ہم سماج (Society) کہتے ہیں۔چونکہ انسانی سماج مخصوص لازمی حالات میں محنت کہ قدغن  ، آلاتِ پیداوارکی تخلیق،  تجریدیت کے جنم  اور کنزیومر و پروڈیوسر کے دوہرے کردار کی وجہ سے بنا  تھا  ۔ اسی لیے محنت، آلات، فکر،  صارفیت (Consumption)  اور پیداواریت   (Production)     انسانی سماج  کی زندگی کے  وجود کی بقا اور ترقی  کے اسباب    و  ضمانت  بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ انسانی سماج  کی تشکیل ، ترقی و تعمیرِ نومیں  معیشت   (Economy) کارفرما ہے۔یہ معیشت ئی ہے جس نے قدرت (Nature)سے تہذیب  اور جانور سے انسان کو جنم دیا۔معاشی  عومل کے سوا تحریر، تقریر، کلچر، تہذیب،رسوم و رواج،   علم و ادب، آرٹ ، سائنس،مذہب اور اخلاقیات اپنا الگ سے کوئی وجود نہیں رکھ سکتے۔انسانی زندگی جس   سماج سے پیوستہ ہے وہ  معیشت (Economy)کے سائیکل پہ چلنے  والی چیز کہ علاوہ اور کچھ نہیں۔ 

ارتقا  اور اکانومی  تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Irtqa aur economy(Evolution and economy)
ارتقا  اور اکانومی  تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Irtqa aur economy(Evolution and economy)

جدید تر اس سے پرانی