جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں تحریر: گلریز شمسی Article by Gulrez Shamsi A critical review on gender discrimination

 جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
(A critical review on gender discrimination)

تحریر: گلریز شمسی

جس طرح بیوی ایک عورت ہوتی ہے بلکل اسی طرح ماں، بہن، بیٹی، خالہ، پھوپھی وغیرہ بھی عورتیں ہوتی ہیں۔مگر جو انسانیت سوز تشدد عام طور پر شوہر بیویوں پر کرتے نظر آتےہیں ویسا تشدد نا تو بیٹے ماؤں پر کرتے ہیں نا بھائی بہنوں پر ، نا باپ بیٹیوں پر اور نا بھانجے اور بھتیجے اپنی خالاؤں اور پھپھیوں پر۔

ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مرد اپنی بیٹیوں، بہنوں ، ماؤں ، خالاؤں اور پھپیوں پر تشدد کرتے ہی نہیں ہیں مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جتنا تشدد عورت بحیثیت بیوی شوہر کے ہاتھوں برداشت کرتی ہے اتنا کسی اور رشتے دار مرد کے ہاتھوں برداشت نہیں کرتی ۔ اگر پاکستان کے اخبارات میں ماہانہ عورتوں پر تشدد کے پچاس واقعات شائع ہوتے ہیں تو ان میں سے اوسطا پینتالیس شوہروں کے ہاتھوں بیویوں پر ہونے والے تشدد سے متعلق ہوتے ہیں ۔ باقی پانچ واقعات کا تعلق مردوں کے ہاتھوں بیویوں کے علاوہ دیگر رشتے دار خواتین پر تشدد سے ہوتا ہے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شوہر بیویوں پر اسقدر تشدد کیوں کرتے ہیں؟؟ تو اسکا جواب سیدھا سا ہے کہ دنیا کا ہر مذہب شوہر اور بیوی پر ایک دوسرے کے جو حقوق متعین کرتا ہےان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تقریبا ہر مذہب شوہر کو بیوی پر تشدد کی اجازت دیتا ہے اور بیوی کا فرض قرار دیتا ہے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو سکے شوہر کی زیادتیاں چپ چاپ برداشت کرتی رہے اور ہر دکھ سہہ کر بھی حرف شکایت زبان پر نا لائے ۔

آجکل بہت سے ملحد دوستوں میں یہ رجحان واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ وہ عورتوں پر مردوں کے ہاتھوں ہونے والی زیادتیوں سمیت ہر قسم کے ظلم و جبر کا ذمہ دار معاشرے اور معاشرتی روایات کو قرار دے کر مذاہب کو باعزت بری کررہے ہیں مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ معاشرتی روایات کی بھی کوئی نا کوئی بنیاد ہوتی ہے اور رشتے ناتوں کے معاملے میں معاشرتی روایات کی جو بنیاد ہے وہ مذہب کے سوا کوئی اور نہیں ہے اب وہ چاہے کوئی ایک مذہب ہو یا مختلف مذاہب کا مجموعہ یا ملغوبہ ہو۔

دنیا کے تمام مذاہب کو اگر چھان پھٹک کر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر مذہب کے مطابق عورت پر جتنا حق اسکے شوہر کا ہوتا ہے اتنا کسی اور رشتے دار کا نہیں ہوتا کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ عورت کوئی جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ کوئی مشین ہے جسکی دنیا اور آخرت دونوں میں سلامتی اور فلاح کا دارو مدار اسکے مالک یعنی شوہر کی خوشنودی اور رضا پر ہے اور شوہر جس طرح چاہے اس مشین کو آپریٹ کرسکتا ہے اور اگر مشین مرضی کے مطابق کام نا کرے تو اسے (شوہرکو ) اختیار حاصل ہے کہ اسے اپنی مرضی کے مطابق بنانے کے لئے جو حکمت عملی مناسب سمجھے اختیار کرلے – یعنی ایک کمپیوٹر آپریٹر کی طرح کمپیوٹر میں جو پروگرام چاہے انسٹال کردے اور جو پروگرام چاہے وہاں سے ان انسٹال کردے۔

چونکہ دنیا کے ہر الہامی اور غیر الہامی مذہب کے نزدیک شوہر وں کے بیویوں پر حقوق لامحدود ہیں لہذا معاشرے میں بھی یہی رویہ رائج ہے (معاشرے میں موجود رشتہ داریوں کے نظام کی اساس مذہب ہے

میری ذاتی رائے میں جس طرح دنیا کا ہر مذہب ماں کی عزت و تکریم کی تعلیم دیتا ہے اسی طرح ہر مذہب میں اگر بیویوں کی عزت و تکریم کی تعلیم بھی دی گئی ہوتی تو آج بیویاں بھی آئے دن شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ نا بن رہی ہوتیں ۔مثال کے طور پر اگر قرآن میں لکھا ہوتا کہ بیوی پر تشدد حرام ہے اور ایسا کرنے والا جہنمی ہے یا ایسا کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے تو مشکل ہی سے کوئی شوہر بیوی پر تشدد کی ہمت کرپاتا ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذاہب واقعی عورت کے دشمن ہیں تو پھر ان میں ماں کی عزت و تکریم کی تعلیم کیوں دی گئی ہے ؟؟ اس سوال کا جواب بھی نہایت سادہ اور آسان ہے ۔ ماں کی عزت و تکریم کی تعلیم دینا اسلام سمیت دنیا کے ہر مذہب کی مجبوری تھی ۔ مثال کے طور پر اگر قرآن، توریت، زبور، انجیل، گیتا، ویدا، نویدیتا، گرنتھ صاحب سمیت کسی بھی مذہبی کتاب میں بیٹے کو ماں پر تشدد کی اجازت دی گئی ہوتی تو کیا اس مذہب سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی عورت بیٹے کی ماں بننا پسند کرتی یا بیٹے سے محبت کرتی یا دل جان ایک کرکے اس کی پرورش کرتی جبکہ اسے معلو م ہوتا کہ بڑے ہوکر اس بیٹے کو اس پر تشدد کرنا ہے ؟؟ تقریبا پچاس فیصد مائیں تو بیٹے کی پیدائش کے فورا بعد ہی اسکا گلا گھونٹ کر قتل کردیتیں پھر مذاہب اور مذاہب کے ماننے والے کیا خاک پھلتے پھولتے؟؟

بلکل اسی طرح بیٹیوں، بہنوں خالاؤں اور پھپیوں پر بھی مردوں کے حقوق محدود ہیں لہذا وہ بھی مردوں کے عتاب کے نشانہ بننے سے بڑی حد تک محفوظ رہتی ہیں لیکن اگر قرآن اور دیگر مذہبی کتابیں مردوں کو ان خواتین پر تشدد کا فری لائسنس فراہم کرتیں تو خیریقینی طور پر ان کی بھی نہیں تھی۔

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں تحریر: گلریز شمسی Article by Gulrez Shamsi A critical review on gender discrimination
 جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں تحریر: گلریز شمسی Article by Gulrez Shamsi A critical review on gender discrimination

جدید تر اس سے پرانی