محنت کی تقسیم ـــــ III تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Mehnat ki taqseem (Labour division) part-3

محنت کی تقسیم (Labour division)ـــــ III

(محنت کی ذہنی اور جسمانی تقسیم اور  ان کے اثرات)

تحریر: عمران کُمبھر

محنت کی تقسیم(Labour division)  کے متعلق پچھلے دو حصوں میں ہم نے اچھے طریقوں سے جائزا لیا ہے۔ان دو حصوں مین ہم   خاندان کے اندر عورت اور مرد کے مابین محنت کی تقسیم اور پھر تاریخی پسمنظر میں سماجی  طور پر محنت کی تقسیم کو زیرِبحث لائے تھے۔اب ہم اس حصے میں محنت کی ذہنی اور جسمانی تقسیم اور پھر ان کے نتائج و اثرات کے متعلق بات رکھیں گے۔ محنت کی ذہنی اور جسمانی تقسیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے "فریزر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ابتدائی معاشرے میں ذہنی اور جسمانی مشقت کی تقسیم یقینی طور پر پروہتوں اور جادوگروں کے طبقہ کے وجود میں آنے سے منسلک ہے۔"

"سماجی ترقی جیسا کہ  ہم جانتے ہیں زیادہ تر کام کاج کی درجہ بدرجہ تقسیم یا سادہ زبان میں محنت کی تقسیم پر مشتمل ہے۔جو کام ابتدائی معاشرے میں سب مل جل کر  کرتے تھے وہ ایک سا اچھا اور برا ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ کام کو مختلف مزدوروں کے طبقات مٰیں تقسیم کردیا گیا جو سے زیادہ بہتر اور زیادہ مہارت سے کرسکتے تھے۔ اور ان کی مادی یا  غیر مادی پیداوار میں ساری برادری کا حصہ ہوتا تھا اور یوں سب کے سب اس بڑھتی ہوئی مہارت سے فیض یاب ہوتے تھے۔جادو ٹونہ کرنے والے ہر قبیلے میں پائے جاتے تھے اور آسٹریلیا کے آبائی باشندوں جیسے پسماندہ ترین وحشیوں میں یہ واحد پیشہ ور طبقہ ہے۔"

ذہنی اور جسما نی  محنت کی تقسیم(Labour division) سماج کی طبقاتی تقسیم سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔محنت کی اس تقسیم نے انسانی ترقی کے  عمل کو بہت آگے بڑھایا۔ جس طبقے کے پاس دولت کے انبار لگ گئے اور جو  بنیادی ضروریاتِ زندگی  کی پریشانیوں سے آزاد ہو گئے، ان کے پاس اب وقت کی  لازوال ملکیت بھی جمع ہوگئی۔مادی پیداوار اور وقت کی دولت سے  مالامال  اس چھوٹے سے طبقے نے کام کاج پر نچلے  طبقے کو  لگا کر خود  کو فرست و فراغت کے حوالے کر دیا۔ان کو پتا نہیں تھا کہ  انسان سبھی اعضاء کو جسمانی مشقت سے آزاد کروا کر آرام کروا سکتا ہے مگر دماغ کو تو نیند میں بھی آرام کرنا نہیں آتا ، وہ کیسے سکون سے بیٹھے گا۔ فارغ  وقت کی قیمتی شے کو  انسان نے بلآخر ذہنی مشقت کے نام کردیا اور ذہانت کی انتہاؤن کو چھونے لگا۔فراغت کے وقت میں انسان کی نظر جہاں جہاں پڑی اس نے ان پر غور و فکر کرنا شروع کر دیا۔سب سے پہلے تو اس نے آسمانی دنیا پہ نظر دوڑائی  جو اس انسانوں کے لیے ایک حیران کن دنیا تھی جس سے ان کے کئی عقائد جڑ گئے  اور جرنے لگےتھے۔ "جیساکہ جرمن فلاسفر فیورباخ (Ludwig Feuerbach)نے کہہ دیا کہ حقیقی نظری سائنس (Theoretical Science) علمِ کائنات (Cosmology) سے شروع ہوتی ہے۔اور اسی لیے پہلا فلسفہ دان  ماہرِفلکیات  ہی تھا(3)۔" کرہ ارض پہ ایسے کئی جاندار ہیں جن کے  حواس  خمسہ (Five Senses) کے کام کرنے کی حد اور قوت   انسان سے زیادہ ہے مگر ان کے پاس ذہن نہیں ہے  جو اتنی قوت  کے ساتھ ساتھ چیزوں کو سمجھ سکےپ، پرکھ سکے،  ان کا حساب کتاب رکھ سکے اور ان سے  بے غرض خوشیوں  اور جذبات کا اظہار کرسکے۔یہ کمال صرف انسان کو ہی حاصل ہے۔ وافر فالتو وقت  ئی تھا جس سے مصر کے پروہتوں نے  فلکیاتی مشاہدات سے دریاءِ نیل میں آنے والے سیلاب کی پیش گوئی کی اور معاشرے میں طاقت اور عزت میں نےحد اضافہ پایا۔

محنت کی تقسیم (Labour division)میں مزید ترقی سے دماغی  کام کرنے والوں کے اقلیتی طبقے  اور جسمانی    محنت و مشقت  سے روزی کمانے والی اکثریت میں ناقابلِ عبور فرق حائل ہو گیا۔ہزاروں سالوں کے عرصے کے اندر جسمانی محنت کرنے والوں کو  ذہنی محنت کرنے والوں نے گھٹیا کہہ کر بڑا تعصب اختیار کیا۔حتیٰ کہ اس محنت کی تقسیم سے زبان،الفاظ، خیالات ، لہجےاور عقائد بھی طبقوں کے حساب سے الگ الگ شکل اختیار کر گئے۔ذہنی اور جسمانی فرق کے مابین تعصب کی انتہا کی مثال   زینوفون  (Xenophon) کی  اس بات سے پرکھی جاسکتی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ؛

"مستریوں  کے کام کرنے والے سماج میں اچھی نظر سے نہیں دیکھے جاتے اور ہمارے  شہروں میں انہیں بجاطور پر قابلِ عزت نہیں سمجھا جاتا۔یہ فنوں کام کرنے والوں اور ان کے نگرانوں کے جسم کو خراب کر دیتے ہیں جس کی وجہ  یہ ہے کہ چاردیواری کے اندراور بیٹھ کر ایک ہی جگہ کام کرنا پڑتا ہے۔ بعض  اوقات پورا دن  آگ کے سامنے گذارنا پڑتا ہے۔جسمانی خستگی کے باعث روح بھی مر جاتی ہے۔ اس  کے علاوہ یہ کام کرنے والے لوگ دوستی اور شہریت کے تقاضے  اس لئے بھی پورے  نہیں کر سکتے کہ ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ نتیجتاً انہیں اچھا  محبِ وطن اور اچھا دوست نہیں سمجھا جاتا۔بعض شہریوں میں کسی شہری کے لئے ایسے جسمانی کام کرنا غیرقانونی ہے۔"

ذہنی اور جسمانی  محنت کے اس فرق  نےانسانوں کو الفاظ، سوچ اور خیالات کے  ایک  آزاد وجود کے فریب میں دھکیل دیا۔ انسانوں کو اسی غلط تصور نے  تمام مذہبی اور فلسفیانہ خیال پرستی (Idealism)    کے کنویں میں غرق کردیا۔مذہبی اور خیال پرستانہ ذہن موضوع اور معروض کے فرق کو نہیں سمجھ سکتا۔اسی وجہ سے اس نے اپنے  تصورات کے وجود کو  خود سے الگ کردیا اور ان کو علیحدہ ہستیوں سے منسوب کر کے دیکھنے لگا۔

آخری تجزیے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ محنت کی تقسیم(Labour division) ہی تھی جس نے انسان کو حیوانی جتھوں سے لاکر  قبیلے، ذات ، برادری اور خاندان  کے نظم و ضبط میں منظم کیا۔محنت کے اسی عنصر نے پیداوار نظام کے لیے بنیاد فراہم کیا۔مرد اور عورت کے مابین محنت کی  جنسی تقسیم نے ہمیں مادر سری (Matriarchal) اور پدرسری (Patriarchal)سماج   دیا تو محنت کی سماجی تقسیم نے آقا-غلام، جاگیردار-کسان، اور سرمائیدار- مزدور کے طبقے عطا کیے۔جبکہ محنت کی  ذہنی اور جسمانی تقسیم نے باقی تقسیموں سے مل کر  انسانون کو  خیال پرستی(Idealism) اور مادیت پرستی (Materialism) کے فلسفے ے نوازا۔ مطلب محنت کی تقسیم کا  سماج  کے ڈانچے کی تشکیل و تعمیرِ نو میں ایک کلیدی کردار ہوتا ہے۔مستقبل کے اندر بھی یہ محنت کی تقسیم ہی ہوگی جو پیداوار کے نت نئے طریقے اختیار کر کے   اس  کے مطابق سماج کو   مختلف شکلوں اور صورتوں میں  ڈھالنے کی طرف جائیگی۔

محنت کی تقسیم ـــــ III تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Mehnat ki taqseem (Labour division) part-3
محنت کی تقسیم ـــــ III تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Mehnat ki taqseem (Labour division) part-3

جدید تر اس سے پرانی