محنت کی تقسیم ـــــII تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Mehnat ki Taqseem (Labour division) part-2

 محنت کی تقسیم(Labour division) ـــــII

(عہدِ وحشت سے بربریت ــــتمدن تک)

تحریر: عمران کُمبھر

عہدِ بربریت سے گزر کر جب ہم تمدن کے دروازے پر آ پہنچتے ہیں ۔"تقسیم محنت(Labour division) کی مزید ترقی سے اس دور کی ابتدا ہوتی ہے۔بربریت کے ابتدائی دور میں انسان اپنی فوری ضرورتیں پوری کرنے کے لیے مال پیدا کرتا تھا ، تبادلہ(Exchange)کبھی کبھار ہوتا تھا، جب اتفاق سے کوئی چیز فاضل بچ رہی ہو ۔ بربریت کے درمیانے دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ گلہ بان قوموں کو مویشی کی صورت میں ایک ایسی ملکیت مل گئی تھی جس میں کافی بڑے بڑے ریوڑ اور جھنڈ ہوتے تھے اور ان کے پاس اپنی ضرورتوں  سے فاضل مال برابر رہا کرتا تھا۔ اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ گلہ بان لوگوں میں اور پچھڑے ہوئے قبیلوں میں جن کے پاس ریوڑ نہیں تھے، ایک طرح کی تقسیم محنت ہوئی جس کی وجہ سے پیداوار کی دو مختلف حالتیں ساتھ ساتھ  قائم ہو گئیں۔ اس سے مستقبل اور باقائدہ تبادلے کے لیے موافق حالات پیدا ہوگئے۔بربریت کے آخری دور میں زراعت اور دستکاری مین مزید تقسیم محنت ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اجناس کا برابر بڑھتا ہوا حصہ خصوصیت کے ساتھ تبادلے کے لیے پیدا کیا جانے لگا حتیٰ کہ الگ الگ مال پیدا کرنے والوں میں تبادلہ اتنا بڑھ گیا کہ سماج کے لیے ایک نہایت ضروری چیز بن گیا۔ محنت کی ان تمام تقسیموں کو تمدن نے مستحکم کیا اور آگے بڑھایا۔ خاص کر اس نے  شہر اور دیہات  کے فرق کو گہرا کردیا اور ایک تیسری تقسیم محنت کا اضافہ ہوا جو تمدن کے عہد کی خصوصیت ہے اور فیصلہ کن اہمیت رکھتی ہے-اس نے ایک ایسے طبقے کو جنم دیا جوپیداواری عمل میں قطعی کویئ  حصہ نہیں لیتا  اور محض پیداوار کا تبادلہ  کیا کرتا ہے-یہ تاجروں کا طبقہ ہے۔ اس سے پہلے جتنے ادھورے طور پر بنے ہوئے طبقے پائے جاتے ہیں، ان سب کا تعلق  محض پیداوار سے تھا۔پیداوار مین لگے ہوئے لوگوں کو یہ نامکمل سی طبقاتی ساخت مینیجروں اور کام کرنے والوں، یا بڑے پیمانے پر پیدا کرنے والوں اور چھوٹے پیمانے پر پیدا کربے والوں میں بانٹا کرتی تھی۔ لیکن اب پہلی مرتبہ ایک ایسا طبقہ نمودار ہوا جو پیداوار میں کوئی حصہ نہیں لیتا تھا مگر اس  کے باوجود اس نے بحیثیت مجموعی پیداوار کے سارے انتظام کو اپنے قبضے میں کر لیا اور پیدا کرنے والوں کو اقتصادی  طور پر حکمرانی میں لے لیا۔ یہ ایسا طبقہ ہے جو ہر قسم کا مال پیدا کرنے والوں کے درمیان ایک  ضروری اور لازمی کڑی بن جاتا ہے اور دونوں کا استحصال کرتا ہے۔ پیدا کرنے والوں کو تبادلے کی پریشانی اور اس کے  خطروں سے بچانے کے بہانے، ان کے مال کے لیے دور دور کے ملکوں میں منڈی تلاش کرنے کے بہانے، اور اس طرح سماج کا سب سے اچھا کارآمد طبقہ ہونے کا دعویٰ کر کے، طفیلیوں  کی طرح معمولی خدمتوں کے عیوض ملک کےاندر اور باہر کی پیداوار کا سب سے اچھا حصہ دودھ کی بالایئ کی طرح خود نگل لیتا ہے، تیزی سے کثیر دولت کا مالک بن بیٹھتا ہے  اور  اس کی مناسبت سے سماجی اثر پیدا کرتا ہے۔"

"تمدن سماج کی ارتقا کی وہ منزل ہے جس میں محنت کی تقسیم(Labour division)، اس کی بدولت افراد کے درمیان ہونے والا تبادلہ اور ان دونوں چیزوں کو ملانے والی جنس تبادلہ کی پیداوار اپنے ارتقا کی آخری حد پر پہنچ جاتی ہے اور اب تک کے پورے سماج میں انقلاب پیدا کردیتی ہے۔سماج کے تمام سابقہ دوروں میں عمل پیداوار بنیادی طور پر اجتماعی تھا اور اسی طرح استعمال کے  سامان کو چھوٹی یا بڑی قدیم کمیونسٹی برادریوں میں سیدھے سیدھے بانٹ لیا جاتا تھا۔یہ ساجھے کی پیداوار نہایت ہی محدود دائرے کے اندر ہوتی ہوگی لیکن ساتھ ہی اس میں پیدا کرنے والے لوگ اپنے عمل پیداوار اور پیداوار دونوں  کے مالک ہوتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ  ان کی پیداوار کا کیا ہونا ہے۔وہ اسے خود خرچ کرتے تھے۔ وہ کبھی ان کے ہاتھوں سے دور نہین جاتی تھی۔جب تک اس بنیاد پر پیداوار جاری  رہی تب تک وہ پیدا کرنے والوں کے قابو سے باہر نہیں نکل پائی اور ان کے خلاف ویسی عجیب اور بھوت پریت  جیسی قوتوں کو کھڑا کر سکے جیسا کہ تمدن کے عہد میں  باقائدہ نمودار ہوتی رہتی  ہین۔"

"لیکن رفتہ رفتہ پیداوار کے اس عمل میں محنت کی تقسیم (Labour division)گھس آئی۔ اس نے پیداوار کی اجتماعی نوعیت کی جڑ کھود ڈالی ۔ اس نے افراد کے تصرف کو عام باقاعدہ بنا دیا اور اس طرح افراد کے درمیان تبادلے کو جنم دیا۔ ہم اوپر دیکھ چکے ہیں کہ یہ کیسے ہوا۔ رفتہ رفتہ جنس تبادلہ کی پیداوار غالب شکل بن گئی۔"

"جب جنس تبادلہ کی پیداوار کا رواج ہوا یعنی جب پیداوار اپنے استعمال کے لیے نہیں بلکہ تبادلے کے لیے کی جانے لگی تو لازماً پیداوار ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے لگی۔تبادلے کے دوران پیدا کرنے والا اپنی پیداوار  سے الگ ہوجاتا ہے۔ وہ نہین جانتا کہ اس کا کیا ہوا۔ جیسے ئی زر اور ان کے ساتھ سوداگر مختلف مال پیدا کرنے والوں کے بیچ میں ایک درمیانے آدمی کی حیثیت سے گھس آتے ہیں، تبادلے کا عمل اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتا ہے، پیداوارکے مال کا حشر اور زیادہ غیر یقینی ہو جاتا ہے۔ تاجروں کی تعداد بہت ہوتی ہے اور ان میں سے کسی کو نہیں معلوم ہوتا کہ دوسرا کیا کر رہا ہے۔ اجناس صرف ایک آدمی سے دوسرے آدمی کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایک منڈی سے دوسری منڈی میں منتقل ہوتی رہتی ہیں۔اب پیدا  کرنے والوں کا اپنی زندگی کے لیے ضروری چیزوں کی کل پیداوار پر کوئی قابو نہیں رہ گیا ہے اور تاجروں کو بھی اس پر قابو حاصل نہیں ہوا۔ مال اور پیداوار اتفاقات کے ہاتھ میں کھلونا بن جاتے ہیں۔"

محنت کی تقسیم (Labour division)کو تاریخی پسمنظر میں دیکھنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ انسانی ارتقا اور ترقی کے ہر عہد میں محنت کی تقسیم نے ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔جب سے بھی قدرت نے انسانوں  پہ محنت کی شرط عائد کی ہے تب سے انسانوں نے  اپنی ضرورت کے خاطر' ضرورت ایجاد کی ماں  ہے' کے اصول کے تحت  محنت کی دنیا میں تحقیق و جستجو  کا آغاز کیاہے۔محنت کی تقسیم نے انسانوں کو بےنظم و ضبط حیوانی  جتھوں سے لاکر  گن ، برادری ،قبیلے اور خاندان  کی شکل کے نظم و ضبط میں  منظم رہنے پر مجبور کیا  ۔اور پھر اسی نظم و ضبط کی تنظیموں میں مزید ارتقا کر کے انسانوں کو آگے ترقی کی راہ کے طرف دھکیلا۔ یہ محنت کی تقسیم (Labour division)ہی تھی جس سے انسانوں نے  اپنی ضرورت کے  تحت   آلاتِ پیداوار تخلیق کرتے ہوئے پیداوار کے  مختلف طریقوں کو اپنایا اور نئے سماجی رسوم و رواج،ثقافتوں، عقائد، آرٹ ،سائنس، فلسفے اوردیگر علوم و فنون کی بنیادیں رکھیں۔

محنت کی تقسیم ـــــII تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Mehnat ki Taqseem (Labour division) part-2
محنت کی تقسیم ـــــII تحریر: عمران کمبھر Article by Imran Kumbhar Mehnat ki Taqseem (Labour division) part-2


جدید تر اس سے پرانی