زر(Money)
تحریر: عمران کُمبھر
ایک جنس کے مالک کے
لئے اس کی ہر جنس اپنی قدر(Value) دوسری جنس میں ظاہر کرتی ہے۔مثلاً ایک درزی کے ایک کوٹ کی قدر 20
کلوگرام گندم (دوسرے لفظوں میں ایک کوٹ کو بنانے
میں جتنی محنت صر ف ہوتی ہے اتنی
ہی محنت 20 کلوگرام گندم کو پیدا کرنے میں
لگتی ہے) سے ظاہر ہوتی ہے۔اس لئے ایک مالک کے لئے ہر دوسرے مالک کی جنس اس کے لئے
ایک مساواتی اکائی (Equivalent)ہوتی ہے۔اور اسی طرح دوسرے مالک کے لئے پہلے مالک کی جنس
ایک مساواتی اکائی ہوتی ہے۔اس طرح یہ بات ہر جنس کے مالک پر صادر آتی ہے۔نتیجتاً
ایک جنس باقی سب جنسوں کے لئے ہمہ گیر مساواتی اکائی (Universal
equivalent)ہوتی ہے۔اب
سوال یہ ہے کے سماج
میں ہر جنس کے مالک کے لئے دوسرے
کی جنس مساواتی اکائی ہوتی ہے یا ایک جنس باقی دوسری سب اجناس
کے لئے ہمہ گیر مساواتی اکائی ہوتی ہے
تو ہم سماجی طور پر کسی ایک' خاص جنس' کو کیسے منتخب کریں ہمہ گیر مساواتی اکائی کے لئے۔جس ایک 'خاص
جنس' سے سماج کا ہر فرد اپنی جنس کی قدر
کا تعین کرے اور اپنی جنس کا اس 'خاص جنس 'سے تبادلہ کرے،اور بعد میں جب انہیں
کوئی اور جنس کی ضرورت ہو تو وہ' خاص جنس 'دے کر
ضرورت والی جنس حاصل کر لے۔ایسی 'خاص جنس' کو منتخب کرنے کے لئے وقت کی تقاضا ،مخصوص تاریخی اور سماجی حالات درکار ہوتے ہیں۔
قدیم دور میں جب سے
بھی اجناس کا تبادلہ (Exchange) شروع ہوا تھا تو اس کی
پہلی شکل بارٹر سسٹم (Barter system)
تھی۔یعنی اجناس کے بدلے اجناس کا تبادلہ۔ایک جنس کا دوسری
جنس سے تبادلہ صرف اس لئے ہوتا تھا کیوں کے ان دونوں کو بنانے یا پیدا کرنے میں جو محنت صرف ہوتی تھی وہ برابر تھی۔ یہ سلسلا
کافی عرصہ چلا پھر جیسے جیسے اس سسٹم میں اجناس کی شکل و صورت،
نزاکت و نفاست ،وزن، حجم، اور ذخیرہ اندوزی میں پیچیدگیاں آتی گئیں ، اجناس
کی پیداوار اپنی ضرورت سے زیادہ بڑھتی گئی
اور جوں جوں سماجی معاملت تیز ہوتی گئی تو
لوگ کوئی دوسرا راستہ تلاش کرنے لگے۔اسی لئے پہلی مرتبہ لوگوں کو ضرورت پڑی ایسی چیز کی جو سماجی طور پر کارآمد انسانی محنت سے بنی یا پیدا کی ہوئی جنس ہو،
باقی اجناس کے بیچ تبادلے کے وسیلہ (Medium of
exchange)کا کردار بھی طبعی طور پر نبھا سکے اور سماج میں اس وقت
مقبولِ عام بھی ہو۔ تو اس وقت غالباً وہ
چیز تھی مویشی(Livestock) جو اسی
عرصہ میں سماجی پیداوار کے عمل میں
مقبولِ عام جنس تھی، زیادہ تر دولت کی
شکل بھی وہ تھی اور جس پہ لوگ اپنی محنت
بھی صرف کرتے تھے۔اسی لئے تاریخی طور پر پہلی
بار مبادلہ کی معاملت میں مویشی نے مبادلہ کا وسیلہ بنی مطلب ہمہ
گیرسماجی اکائی(Universal equivalent) یعنی زر (Money)کا کام کیا۔
"وہ جنس جو
دوسری اجناس کی قدر (Value)کا تعین کرے یعنی پیمانے (Measurement)کی حیثیت سے کام کرے اور بذات خود یا کسی نمائندہ (مطلب
اپنی جگہ کسی کاغذی نوٹ، چیک ، پلاسٹک کارڈ یا کوئی اور کو گردش کرائے جو آجکل ہو
رہا ہے) کے ذریعہ اجناس کے تبادلہ میں وسیلہ کے طور پر گردش کرے اسے "زر(Money)" کہتے ہیں۔"
ہر چیز کی طرح زر کی
بھی ارتقا ہوئی ہے۔مویشی (Livestock)یعنی پالتو گھریلو
جانور مثلاً بھینس، بکری، گائے وغیرہ زر کی اوائلی شکل ہیں۔اس کے بعد دھات کو زر
کے طور پر استعمال کیا گیا جس میں چاندی اور سونے کو بڑی پذیرائی ملی جس کی آج کے جدید دور میں
بھی بین لاقوامی سطح پہ بڑی اہمیت ہے۔اجناس کے تبادلہ میں زر کو محض ہمہ
گیر مساواتی اکائی کے کردار کے طور پر
خیال کیا جاتا ہے اس لیے اس کی جگہ کسی خاص ضمانت (جو کے عام طور پہ ریاست دیتی
ہے)کے تحت کوئی اور بھی چیز استعمال کی جا سکتی ہے۔ا س لئے سونے چاندی کی جگہ زر کہ لیے کاغذی نوٹ کا ستعمال کیا گیا جو آج
تک بھی ایک بڑے پیمانے پہ کارفرما ہے۔
پلاسٹک منی جیسے کریڈٹ کارڈ اورڈیبٹ کارڈ، ڈجیٹل منی، اور کریپٹو کرنسی(Cryptocurrency) بھی زر (Money)کی
جدید شکلیں ہیں۔
'زر(Money)' پیداواری صلاحیت کی ترقی سے پیداوارمیں اضافہ اور اجناس کے تبادلہ کی بڑھتی تیز تر گردش کی ضرورت تھی۔زر نے انسان کو ضروریاتِ زندگی کی اجناس کی لین دین میں بڑی آسانی فراہم کی۔ مگر زر کی ترقی کی وجہ سے اجناس کی دولت کو جمع کرنے میں آسانی ہوئی۔زر کی جمع کرنے کی اسی خصوصیت نے بینکنگ سسٹم کو پروان چڑھایا ، سودخوری کی بازار گرم ہوئی، اور دنیا کےاکثریتی طبقے محنت کش مزدورں کی محنت کو زر کی شکل میں جمع کر کے اقلیت کی ٹجوڑیوں میں بند کردیا۔
زر تحریر: عمران کُمبھرArticle by Imran Kumbhar Zar (Money) |