انسان
، جراثیم اور بیماریاں(Human, Germs and Diseases)
تحریر :غلام مصطفی (جی،ایم)
بیماری (Disease)
انسانی جسم میں کئی ایک نظام متواتر ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں
۔مثلا نظام انہضام یا نظام دوران خون ۔صحت مند جسم کیلئے ان کے درمیان مکمل تعاون
اشد ضروری ہے۔بعض دفعہ انسانی جسم کی کارکردگی میں باہر سے دخل اندازی ہوتی ہے جس
کی وجہ سے انسانی جسم کی مشین میں کچھ پرزے اپنے مقرر شدہ کام سے منحرف ہو جاتے
ہیں۔آہستہ آہستہ یہ نقص اتنا وسیع ہو جاتاہے کہ جسم کی تنظیم بری طرح متاثر ہو
جاتی ہے۔تب انسانی جسم بیمار ہو جاتاہے ۔
تاریخی پسِ منظر(Historical background)
پرانے زمانے کے لوگ نہ تو بیماری کو صحیح طور پر سمجھتے تھے اور نہ
ہی اس کے صحیح علاج کے متعلق کچھ جانتے تھے قدیم لوگ بیماری کے متعلق عجیب وغریب
خیالات رکھتے تھے ۔ان کے خیال کے مطابق بد رُوحیں انسانی جسم میں داخل ہو جائیں تو
اسے بیمار کر دیتی ہیں۔ان بد رُحوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلے وہ ایک عامل کی
خدمات حاصل کرتے تھے
یہ عامل بیچارے بیمار انسان کی بری طرح سے مار کٹائی کرتا اسے فاقہ
کشی میں مبتلا رکھتا ا،اسے طرح طرح کی اذیتیں پہنچاتا اور کئی دیگر ناقابل فہم
رسومات اداکرتا تھا ۔جس طرح آجکل کے ایک خاص شعبے سے تعلق رکھتے اشخاص لوگوں سے جن
وغیرہ نکالنے کیلئے نا قابل فہم رسومات ادا کرتے ہیں۔
اب بھی کئی پسماندہ علاقوں میں ان توہمات میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن
نئے نئے سائنسی انکشافات کی روشنی میں یہ اندھیر نگری ختم ہوتی جارہی ہے۔آج سے
تقریباََدوہزار سال قبل ایک یونانی طبیب بقراط نےیہ خیال ظاہر کیا کہ بیماری
جادوگری سے نہیں بلکہ کسی نہ کسی قابل فہم وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس کے نظریے کے
مطابق انسان کے جسم میں چار قسم کے ضروری مائع پائے جاتے ہیں۔ جس کا نام اس نے
ہیومرز رکھا ہے ۔ایک صحت مند انسان کے جسم میں یہ چاروں ہیومرز ایک مقررشدہ تناسب
میں ہوتے ہیں۔ ان میں کسی ایک ہیومرزکی مقدار اپنے تناسب سے انحراف کرجاتی ہے تو
انسان بیمار ہو جاتا ہے۔انسانی جسم خود بخود اس انحراف کو درست کرنے کی اہمیت
رکھتا ہے۔لیکن بعض دفعہ بیرونی امداد کی ضرورت بھی پیش آتی ہے ۔بقراط بطور علاج
تازہ ہو ا، آرام اور خاص خوراک کا استعمال تجویز کیا کرتا تھا۔
تقریباََِِِ 500 سال بعد ایک رومی حکیم جالینوس نے یہ نظریہ پیش
کیا کی صحت مند انسانی جسم میں چار اشیاء آگ،پانی ، ہوا اور مٹی کا ایک خاص تناسب
لازمی ہے۔آگ کی گرمی ، پانی کا گیلا ہونا، ہوا کی خشکی اور مٹی کی ٹھنڈک ان اشیاء
کی اہم خصوصیات ہیں بیماروں کے علاج کے لئے ۔ جالینوس ایسی ادویات استعمال کیا
کرتا تھا جو کے پودوں، جانوروں اور زمین سے حاصل کردہ اشیاء پر مشتمل ہوتی تھی ۔اس
کی بعض دوائیں واقعی کار آمد ثابت ہوئیں۔لیکن وہ بیماریاں جو خاص طور پر چھوتی
بیماریاں کا صحیح سبب اُنیسویں صدی کے آخر نصف میں ہی جاکر معلوم ہو ا۔اسے جراثیمی
نطریہ یا جرم تھیوری کہتے ہیں۔
جَرم تھیوری(Germ Theory)
اس نظریہ کے مطابق خوردبین جاندار کی وجہ سے جاندروں میں بیماری
پیدا ہوتی ہے ۔خوردبین جاندار سے مراد وہ جاندار جو خوردبین سے نظر آئے ،ان کو
خالی آنکھ سے دیکھا نہیں جاسکتا ہے۔یہاں ان باتوں کواچھی طرح ذہن نشین کر لینا
چاہیے کہ دنیا میں ان مائیکروآرگینزم کی بے شمار اقسام ہیں لیکن ساری کی ساری
اقسام بیماری پھیلانے والی نہیں ہیں بلکہ ان میں اکثر مفید کردار اداکرتی ہے۔ان
جاندار میں سے بیماری پیدا کرنے والوں کو بلا تخصیص جراثیم کا نام دیا گیا ہے۔چند
اہم مائیکروآرگینزم کے متعلق جانتے ہیں۔
1-وائرس(Virus):
وائرس کا لفظی مطلب "زہر" ہے لیکن عام مستعمل تعریف کے
مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وائرس وہ جراثیم ہیں جو چھوتی بیماریاں پیدا کرتے
اورپھیلاتے ہیں ، اور جن کی جسامت بہت ہی چھوٹی ہوتی ہے ان کے متعلق ابھی تک یہ
فیصلہ نہیں ہو سکا ہے کہ یہ جاندار ہیں یا یہ بے جان کیونکہ جب یہ کسی جاندار میں
آتے ہیں تو ان میں جانداروں والی خصوصیات نظر آتی ہے لیکن جب یہ کسی جاندار کے
باہر ہوتے ہیں تو ان میں بے جان شے والی خصوصیات پیدا ہوتی ہیں۔وائرسسز ازخود ذندہ
نہیں رہ سکتے یہ کسی دوسرے مہمان سیل کے اندر رہتے ہیں اور اسے کھاکر اپنی زندگی
برقرار رکھتے،اور اپنی افزائش نسل کرتےہیں ۔گویا کہ یہ پیراسائیٹ ہیں یہ مہمان سیل
کسی پودے ، جانور یا کسی بکٹیریاکا بھی ہو سکتا ہے مہمان سیل کے اندر داخل ہو نے
کے بعد ان کی افزائش نسل کا چکر تیزی سے شروع ہو جاتاہے۔وائرس کی بہت سی اقسام
بیماریاں پیدا کرتی ہے۔انفلوئنزا،بچوں کا فالج،زردبخار،چیچک، خسرہ، اور کتے کے
کاٹے کی بیماری۔
بیکٹریا (Bacteria)
بیکٹریا بہت ہی چھوٹی جسامت کے جاندار ہیں لیکن ان کا قدوقامت
وائرس سے بڑا ہوتا ہے یہ ایک خلیے سے بنے ہوئے جاندار ہیں جو از خود زندہ رہ سکتے
ہیں ۔لیکن ان میں سے بعض پیراسائیٹ بھی ہیں۔بیکٹریا کے خلیےازخود تقسیم ہو کر اپنی
افزائش نسل کرتے ہیں یعنی ایک خلیے سے دو اور دو سے چار اسی طرح تقسیم کا یہ عمل
آدہ گھنٹہ میں مکمل ہو سکتا ہے اور اس طرح 24 گھنٹے میں ایک خلیے کی تعداد کروڑوں
تک پہنچ سکتی ہے ۔بیکٹریا ہر جگہ پائے جاتے ہیں،ان کی اکثریت ہمارے لیے غیر مضر
اور ہماری قوت مدافعت کے لیے فائدہ مند ہے تاہم ان کی چند اقسام نقصان دہ ہو سکتی
ہیں جو مختلف مہلک بیماریاں وبائی اور چُھوت کے امراض پیدا کرتے ہیں۔ اِن امراض
میں ہیضہ،سفلس ، انتھراکس ،جذام ، طاعون، ٹی.بی، تپ دق وغیرہ وغیرہ۔
اب تک یہ بات ذہن نشین ہو چکی ہو گی کہ بیشتر بیماریاں(Diseases) جراثیموں (Germs)کی
وجہ سے پھیلتی ہیں ایک لحاظ سے بیماریوں کو چُھوتی اور غیر چُھوتی دو قسموں میں
رکھا جاسکتا ہے۔
چُھوت کی بیماری
اگر کسی بیمار انسان کو بالواسط یا بلاواسط چُھونے سے اس کی بیماری
دوسروں کو منتقل ہو سکے تو ایسی بیماری کو چُھو تی بیماری کہتے ہیں۔یہ بیماریاں مائیکروآرگینزم
کی پیدا کردہ ہیں مثلاََ چیچک ، خسرہ وغیرہ
غیر چُھوتی بیماریاں
ان میں کچھ وہ بیماریاں شامل ہیں جو کہ ہماری غذا میں چند نہایت
ضروری مرکبات کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں،انھیں غیر چُھوتی بیماریاں کہا جاتا
ہے ۔مثلاََ رکٹس (یعنی جسمانی ہڈیوں کا ٹیڑہ ہو جانا) وٹامن ڈی کی کمی سے پیدا
ہوتی ہے ۔اسی طرح انیمیا کی ایک وجہ لوہے کی کمی ہے ۔ڈی جنریٹیو ڈیزیز کی وجہ بھی
بڑاھاپاہےعمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ دل ۔گردے ،جگر، شریانیں شریانیں اور دوسرے
جسمانی اعضاء کمزور ہو جاتے ہیں اور اپنا اپنا کردار مکمل طور پر ادا نہیں کر سکتے
۔لہذا انسانی جسم اکثر حوادث کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور پھر بیماری گھیر لیتی ہے
مثلاََ خون کے دبائو میں زیادتی بعض دفعہ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ شریانوں کے قطر
بتدریج چھوٹے ہو جاتے ہیں اور دل کو ان میں سے خون کا دورہ برقرار رکھنے کے لیے
زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے ۔بعض دفعہ دل کو ایسا کرنے کے لیےاتنی طاقت کی ضرورت ہوتی
ہے کہ وہ مہیا نہیں کرسکتا یعنی ہارٹ فیل ہو جاتا ہے اور دوران خون بند ہو جانے سے
انسان مر جاتا ہے ۔
چُھوت کی بیماریوں کا پھیلاؤ
متعدی بیماری ایک انسان سے دوسرے انسان تک پہنچتی ہے بعض دفعہ ایسی
بیماریوں کا پھیلاؤ اتنا تیز ہو تا ہے کہ شہروں کے شہر آناََ فاناََ ان کی لپیٹ
میں آجاتے ہیں۔ایسی صورت میں یہ وبائی بیماریاں ۔مثلاََ:انفلوئزا ،کرونا وائرس
وغیرہ وغیرہ۔آئے دیکھیں یہ بیماریاں کس طرح پھیلتی ہیں ان بیماریوں کا پھیلاؤ میں
کسی بیمار انسان سے بیماری پھیلانے والے جراثیم پتھو جینک اور مائیکرو آرگینزم کسی
نہ کسی طرح کافی تعداد میں ایک صحت مند انسان تک پہنچتے ہیں اور اس پر حملہ آور
ہوتے ہیں ۔پتھوجین( پتھو جین سے مراد وہ خوردبینی جاندار کو کسی جاندار میں بیماری
کا سبب بنے)اس طرح منبع سے شکار تک پہنچنے کو منتقلی کہتے ہیں ۔ یہ منتقلی کئی طرح
سے ہو سکتی ہے ، یہ بالواسط یا بلاواسط چھونے سے ہوسکتی ہے بذریعہ ہوا ، آلودہ
مشروبات ، آلودہ خوراک حیوان سے انسان کو اور زخموں کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے ۔
بیماریوں کے خلاف احتیاطی تدابیر
عقل مند انسان کا ایک خاصہ یہ ہے کہ وہ ممکن خطرات کا مقابلہ کرنے
کے لیے پہلے ہی سے تھوڑی بہت تیاری کرتا ہےبجائے اس کے کہ ہم بیماری میں مبتلا ہو
کر نہ صرف جسمانی اور ذہنی اذیت اُٹھائیں ، بلکہ بہت سی رقم بھی برباد کریں اور
پھر پوری طرح صحت یاب ہونے تک اپنا قیمتی وقت بھی ضائع کریں۔کیا یہ بہتر نہیں ہے
کہ ہم بیماریوں کو دُور کرنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔
1- ہمیں اپنی کھانے پینے کی اشیاء کو جراثیم سے آلودہ ہونے سے بچانا چاہیے۔
2- جانوروں اور انسانوں کے فضلے میں بے شمار جراثیم ہوتے ہیں اور اگر نہ بھی
ہوتو بھی یہ ہوا میں موجود جراثیموں کی ایک بہت ہی خطرناک پرورش گاہ ہے ۔پھر
مکھیوں اور ہوا کے ذریعے یہ جراثیم ہماری خوراک تک فوراََ پہنچ سکتے ہیں اگر بے
احتیاطی سے یہ فُضلہ پینے والے پانے میں مل جائے تو اور بھی خطرناک بات ہے ۔اس لیے
ضروری ہے کہ فضلے کو ٹھکانے لگانے کے مئوثر طریقے اختیار کیے جائیں۔
3- جب بھی بد قسمتی سے کوئی شخص کسی متعدی بیماری میں مبتلا ہو جائے تو اس کے
لواحقین کا فرض ہے کہ اس کی اطلاع فوراََ محمکہ پبلک ہیلتھ تک پہنچا دی جائے۔اسے
کسی صورت میں بھی چھپانا نہیں چاہیے۔تاکہ فوری طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کی
جاسکیں۔
4- بیمار شخص کو عام انسانوں سے علیدہ رکھنا بہت ضروری ہے ۔اس طرح چُھوتی
بیماری کے دوسروں تک پہنچنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
5- دواؤں کی مدد سے جراثیموں کو ہلاک کیا جاسکتا ہے ۔اُبلتے ہوئے پانی کا
استعما ل تو بہت مئوثر ہے ۔مثلاََ: بیمار شخص کے استعمال کردہ کپڑوں اور برتنوں کو
ابلتے ہو ئے پانی میں رکھنے سے سارے جراثیم مر جاتے ہیں
انسان ، جراثیم اور بیماریاں تحریر :غلام مصطفی (جی،ایم) Article by Ghulam Mustafa(G.M) Human, Germs and Diseases |