ہائے وہ کیونکر دل بہلائے -غم بھی جسکو راس نا آئے
تحریر: گلریز شمسی
نامور متنازعہ بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین کا کہنا ہے کہ
لوگ تشدد کو پسند کرتے ہیں- یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ زنا با الجبر
کےحل کے طور پر کچھ اس قسم کی تجاویز پیش کرتے ہیں جیسا کہ مجرموں کو پھانسی دی
جائے، ان پر ماورائے عدالت تشدد کیا جائے، انھیں جنسی طور پر ناکارہ کردیا جائے یا
انھیں قتل کردیا جائے تو لوگ ان تجاویز کو پسند کرتے ہیں- لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں
کہ مردوں کو جنسی مساوات سے متعلق تعلیم دی جائے، پدر سری نظام اور خواتین سے
متعلق تعصب کے خلاف جنگ کی جائے، خواتین پر ہونے والے جبر و تشدد کا خاتمہ کیا
جائے--- تو لوگ ان تجاویز کو پسند نہیں کرتے-
مندرجہ بالا بیان ظاہر کر رہا ہے کہ تسلیمہ نسرین ایک امن پسند اور
غیر متشدد ذہنیت کی حامل فرد ہیں جوکہ سزائے موت سمیت ہر قسم کی جسمانی سزا کے
خلاف ہیں اور بنا کسی تشدد دنیا کو ہر قسم کے جرائم سے پاک کردینے کی آرزو مند ہیں- انکی سوچ بہت سے
لوگوں کے نزدیک بے حد مثبت ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سوچ مثبت ہونے
کے ساتھ ساتھ پرییکٹکل بھی ہے ؟؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرے کے افراد کی
اخلاقی تربیت ضروری ہے ایسی تربیت جسکے تحت لوگ رنگ، نسل ، جنس اور زبان جیسے
تعصبات سے بالا تر ہو کر ہر فرد کو اپنے جیسا انسان سمجھنے کے ساتھ ساتھ اسکی شخصی
آزادی کے حق کو تسلیم کرنے کے بھی قابل ہوسکیں مگر کیا اسکا یہ مطلب ہے کہ انسانی
معاشرے کی اصلاح کی خاطر صرف ان ہی اقدامات کو کافی سمجھا جائے؟
بہت سے لوگ جو یورپ میں مقیم ہیں اکثر و بیشتر یورپی ممالک کی مثال
کچھ یوں دیتے ہیں کہ وہاں مجرموں (Criminals)کے ساتھ ہمدردانہ برتاؤ کیا جاتا ہے اور سزائے
موت سمیت بہت سی سخت سزاؤں(Punishments) پر پابندی عائد کی جاچکی ہے اسکے باوجود وہاں جرائم کی
شرح ان ممالک کی نسبت بہت کم ہے جہاں یہ سزائیں اب بھی رائج ہیں- ان لوگو ں سے
میرا یہ سوال ہے کہ کیا یورپینز نے سزاؤں کے خاتمے کے بعد امن و امان حاصل کیا یا
امن و امان حاصل کرنے کے بعد سزاؤں کا خاتمہ کیا ؟ اگر آج کے دور کے پر امن ترین
یورپی ممالک میں کچھ ایسی صورت درپیش آجائے کہ ہر ہفتے تین چار بم دھماکوں اور
فائرنگ کے واقعات میں سینکڑوں افراد قتل ہونے لگیں تو وہاں کے قانون ساز ادارے کیا
کریں گے ؟؟ سزائیں سخت کریں گے ؟؟ جن سزاؤں کو کا العدم قرار دیا جاچکا ہے انھیں
دوبارہ بحال کریں گے؟؟ یا امن و امان کی خاطر رہی سہی سزاوں کا بھی خاتمہ کرکے
مجرموں کو مزید فری ہینڈ دے دیں گے اور انکی اخلاقی تربیت کے مزید پروگرام شروع
کردیں گے ؟؟ اگر اخلاقی تربیت کے پروگرام شروع بھی کردئیے جائیں تو کیا قتل و غاری
گری کی آما جگاہ بنے ہوئے ممالک میں سزاؤں کی عدم موجودگی میں یہ پروگرام کارگر
ثابت ہوسکتے ہیں؟؟
یہ تو انسانی فطرت ہے کہ اگر کسی فرد کو کسی کام پراکسانا مقصود ہو
یا اسے کسی کام سے روکنا مقصود ہو تو عموما یا تو لالچ کا سہارا لیا جاتا ہے یا
پھر دھمکیوں اور سزاؤں کا سہارا لیا جاتا ہے- یورپینز نے بھی غالبا اپنے شہریوں کو
جرائم (Crimes)سے روکنے کے لیے یہی حکمت عملی اپنائی کہ انھیں معاشی خوشحالی اور زندگی کی
آسانیاں فراہم کیں اور انکی شخصی آزادیوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جس کے نتیجے میں
لوگوں کو ذہنی سکون حاصل ہوا اور انکی مجرمانہ سوچ بڑی حد تک غیر فعال ہوگئی جس کے
نتیجے میں جرائم(Crimes) کی شرح میں قابل ذکر کمی دیکھنے میں آئی اگر کسی وجہ سے مغربی
ممالک میں رہنے والوں کو یہ سماجی آزادی اور معاشی خوشحالی حاصل نا رہے تو پھر
انھیں جرائم سے کون روکے گا ؟؟ مثال کے طور پر یورپی ممالک کی طرح نیوزی لینڈ بھی
ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور یہاں بھی یورپی ممالک کی طرح جرائم کی شرح کافی کم ہے - نیوزی لینڈ میں
مسجد پر حملہ کرکے بہت سے لوگوں کو موت کی نیند سلانے والے شخص کا یہ خیال تھا کہ
یہاں تارکین وطن ان وسائل پر قبضہ کر رہے جن پر مقامی آبادی کا حق ہے (تارکین وطن
کم معاوضے پر کام کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں جسکے باعث آجر مقامی افراد کے بجائے
تارکین وطن کو ملازم رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں اس وجہ سے ملک کی مقامی آبادی میں
بیروزگاری اور نیم بیروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے ) - اگر بے روزگاری اور معاشی
بدحالی کے نتیجے میں ایسی ہی سوچ ملک کے آٹھ دس فیصد افراد میں پنپ جائے اور ہر
ہفتے ملک میں تین چار ایسے واقعات پیش آنے لگیں تو اسکا حل کیا ہوگا ؟؟ کیا اخلاقی
تربیت کے نام پر دیئے جانے والے لیکچرز اور اس سلسلے میں منعقد کئے جانے والے
سیمینارز جرائم کے خاتمے کے لیے کافی ہونگے یا مقامی آبادی کو مطمئن کرنے کے لیے
تارکین وطن کو ملک بدر کرنا پڑے گا؟؟ تارکین وطن کو زیادہ معاوضہ طلب کرنے پر
مجبور کیا جائے گا؟؟ ملک کے سرمایہ دارانہ نظام کو جبرا ختم کرکے سوشلزم نافذ کرنا
پڑے گا جہاں مزدوروں کی تنخواہیں آجر کے بجائے حکومت متعین کرے ؟؟ یا پھر لوگوں کو
دھمکانے کے لئے سزاؤں کی ضرورت پیش آئے گی ؟؟
جس شخص نے مسجد پر حملہ کیا وہ سمجھتا تھا کہ تارکین وطن کو پناہ کا دیا جانا اس پر اور اسکے ساتھی مقامی لوگوں پر ظلم ہے اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے جرم کا ارتکاب کیا - کیا کوئی ایسا فرد جس پر درحقیقت ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ہوں اس کے سامنے اسکے رشتے داروں کے گلے کاٹے گئے ہوں اسکی ماں بہنوں بیٹیوں کو ریپ کیا گیا ہو اپنے مجرم کو آزاد گھومتے ہوئے اور زندگی کے مزے لوٹتے ہوئے دیکھ کر مطمئن رہ سکتا ہے؟؟ کیا تسلیمہ نسرین اور انکے ہم خیال دیگر افراد انتقام کو ایک فطری و انسانی جذبہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیں؟؟ کیا معاشرے کا ہر فرد اخلاقی اعتبار سے اتنے اعلی درجے پر فائز ہوتا ہے کہ خود پر بڑے سے بڑا اور گھناؤنے سے گھناونا ظلم کرنے والے کو دل میں کوئی میل لائے بغیر معاف کرسکے ؟؟ اگر دنیا بھر کا لبرل طبقہ ساری دنیا سے سزاؤں کا خاتمہ کرنے میں کامیاب بھی ہوجائے تو کیا وہ مظلوموں کے دلوں میں پلنے والے جذبہ انتقام کا بھی خاتمہ کرسکے گا ؟؟ مظلوموں نے ظلم کی صورت میں جو تکلیف سہی ہو گی وہ تو ایک طرف اپنے مجرم کو خوش باش دیکھ کر وہ جس تکلیف کا سامنا کریں گے اور اس تکلیف کے نتیجے میں وہ جن ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکا ر ہونگے تو کیا وہ ذہنی اور نفسیاتی مسائل معاشرے میں مجرمانہ سرگرمیوں میں اضافے کا باعث نا بنیں گے ؟؟ یہ درست ہے کہ سزائیں جرائم کے خاتمہ کا موجب نہیں بن سکتیں مگر مظلوم کے دکھتے زخموں پر پھاہے کا کام تو کر ہی سکتی ہیں-
ہائے وہ کیونکر دل بہلائے -غم بھی جسکو راس نا آئے تحریر: گلریز شمسیArticle by Gulrez Shamsi on Women discrimination, punishment and crime |