فطرت ایک وحدت
(Nature: A Unity)
تحریر: گلریز شمسی
فطرت ایک وحدت ہے جو اپنے اندر تخلیق اور تحریف کا عمل مستقل طور
پر جاری و ساری رکھتی ہے - کائنات میں موجود تمام انسان ، جانور، پودے ، پتھر ،
مٹی اور ہوا کے ساتھ ساتھ تمام اجسام، اشیاء اور عناصر اسی وحدت کا حصہ ہیں – ہر
شے مادے سے بنی ہے اور مادہ اپنی شکل اور ہیت تو تبدیل کر لیتا ہے مگر فنا نہیں
ہوتا –
مثال کے طور پر میں یعنی گلریز شمسی بحیثیت انسان ایک جسم رکھتی
ہوں – یہ جسم مختلف عناصر سے مل کر بنا ہے جن میں آکسیجن ، ہائیڈروجن ، کیلشیم ،
نائٹروجن، فاسفورس ، کاربن ، سلفر اور لاتعداد دیگر عناصر شامل ہیں – کچھ عرصے بعد
یا کچھ سالوں بعد جب میں مر جاؤں گی تو چاہے میری آخری رسومات کا طریقہ کار کچھ
بھی کیوں نا ہو ، میرا جسم مٹی میں ضرور ملے گا - دنیا میں ہونے والے موسمی تغیرات
یعنی سیلابوں ، طوفانوں، تیز آندھیوں اور بارشوں کے باعث یہ مٹی ایک ہی جگہ موجود
نہیں رہے گی بلکہ ساری دنیا میں بکھر جاۓ گی - وہ نمکیات اور عناصر جو آج میرے جسم کا
حصہ ہیں اور میری رگوں میں خون کے ساتھ دوڑ رہے ہیں جب مٹی میں ملیں گے تو درخت
اور پودے انھیں زمین سے اپنی جڑوں کے ذریعے چوس لیں گے اور پھر ان درختوں میں نئے
پتے ، پھول اور پھل اگیں گے- اس طرح میں بحیثیت گلریز شمسی دنیا میں موجود نا ہوتے
ہوئے بھی دنیا میں موجود رہوں گی – جو بھی درخت میرے جسم کے نمکیات اور عناصر
کواپنے جسم کا حصہ بناۓ گا جب بھی بارش میں بھیگے گا تو ایسی ہی خوشی محسوس کرے گا جیسی خوشی
بارش میں بھیگ کر میں محسوس کرتی ہوں - جب اس درخت کے پتے سوکھ کر جھڑ جائیں گے
اور جب کوئی تھکا ماندہ مسافر ان سوکھے پتوں پر اپنے پاؤں رکھےگا اور اسکے پاؤں
تلے یہ پتے چر مرائیں گے تو اس چرمراہٹ میں ایک خاموش داستان ہوگی، جو کہ میری
زندگی کی ان کہی داستان ہوگی –
میرے جسم کا کوئی ذرہ بہتا ہوا سمندر کی تہہ میں پڑی ہوئی سیپ کی
آغوش میں جا سمائے گا اور سیپ اس ذرے پر کیلشیم کی متعدد تہیں چڑھا کر اسے سچے
موتی میں تبدیل کر دے گی – پھر وہ سیپ کسی ماہی گیر کے ہاتھ لگ جاۓ گی اور ماہی گیر اسے کسی
جوہری کے ہاتھ فروخت کر دے گا – جوہری اس سیپ کو توڑ کر موتی نکالے گا اور اس موتی
کے ذریعے خوبصورت جیولری بناۓ گا اور اس جیولری کو کوئی محبوب اپنی محبوبہ کے لئے منہ مانگے داموں
خرید لے گا - جب اسکی محبوبہ وہ جیولری پہنے گی اور لوگ اس کی چمک دمک اور
خوبصورتی کی تعریفیں کریں گے ، تو دراصل وہ جیولری کی نہیں بلکہ میری تعریفیں کر
رہے ہونگے –
ہوسکتا ہے کہ میرے جسم کا کوئی ذرہ ہواؤں میں اڑتا ہوا سات سمندر
پار کسی فٹ بال گراؤنڈ میں جاپہچے جہاں ورلڈ کپ کا فائنل کھیلا جارہا ہو – جیتنے
والی ٹیم کے کھلاڑی جیت کے نشے میں سرشار خوشیاں منا رہے ہوں مگر ہارنے والی ٹیم
کا کوئی تھکا ماندہ دل شکستہ کھلاڑی گراؤنڈ میں سینے کے بل لیٹا آنسو بہا رہا ہو –
اسکے آنسوؤں کا کوئی قطرہ اگر اس خاک پر آگرے جو کبھی میرے بدن کا حصہ رہی ہو تو
اس خاک سے جو خوشبو پیدا ہوگی وہ دراصل مٹی کی خوشبو نہیں بلکہ میری خوشبو ہوگی
اور اس خوشبو کو سونگھ کر رونے والے کھلاڑی کو کچھ یوں محسوس ہوگا کہ جیسے یہ ساری
کائنات اسکی غم گسار ہے –
ان تمام مثالوں کا مقصد محض یہ سمجھانا ہے فطرت میں کوئی شے یا
کوئی وجود دوسرے سے الگ نہیں وہ عناصر جو آج ہمارے جسم کا حصہ ہیں گذر جانے والے
کل میں دیگر اجسام کا حصہ تھے اور آنے والے کل میں یہی عناصر ہمارے جسم سے الگ ہو
کر کچھ نئے اجسام کا حصہ بن جائیں گے -
یہی وجہ ہے کہ اکثر تاروں بھری رات میں چھت پر تنہا ٹہلتے ہوۓ، سمندر کی لہروں کا شور
سنتے ہوۓ، سوکھے پتوں پر پاؤں
رکھتے ہوۓ ، کسی پرانے حوض میں جمی
ہوئی کاہی کی خوشبو سونگھتے ہوۓ ہم ایسا احساس اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس کرتے ہیں جسے کوئی نام
نہیں دے پاتے یہ احساس دراصل فطرت کی ایک سرگوشی ہوتی ہے جو اسکی وحدانیت کا جانب اشارہ
کرتی ہے – یعنی جس وجود کے ذرے آج ہمارے موجودہ جسم کا حصہ ہیں اسی وجود کے ذرے اس
ہوا میں موجود ہیں جس میں ہم سانس لے رہے ہیں ، اس ریت میں موجود ہیں جس پر ہم ٹہل
رہے ہیں ، ان پتوں میں موجود ہیں جن پر ہم پاؤں رکھ رہے ہیں اور اس کاہی میں موجود
ہیں جس کی خوشبو ہم سونگھ رہے ہیں –
فطرت کا مقصد(Aim of Nature)
اپنی ہی تخلیقات کی ہیت میں معمولی ردو بدل کے ذریعے مزید نئی نئی
تخلیقات کرنا فطرت کا واحد مقصد ہے-
٢- اخروٹ کی گری کی ساخت دماغ کی ساخت سے بہت ملتی جلتی ہے
-
٣- جس طرح کاربن ہائڈروجن کے ساتھ مل کر آرگینک یعنی نامیاتی اجزا
تخلیق کر سکتا ہے اسی طرح سلیکون بھی ہائڈروجن کے ساتھ مل کر یہ کام کر سکتا ہے –
بڑی حد تک ممکن ہے کے کائنات کے کسی کونے میں ایسی مخلوق بھی پائی جاتی ہو جو
ہماری طرح سانس لیتی ہو ، کھاتی پیتی ہو اور زندگی کے دیگر امور سر انجام دیتی ہو
مگر اسکے وجود کا بنیادی جز ہماری طرح کاربن اور ہائڈروجن نا ہو بلکہ سلیکون اور
ہائڈروجن ہو -
فطرت استاد ہے (Nature is a Teacher)
فطرت سب سے بڑا استاد ہے جس کی موجودگی میں نا تو کسی نبی کی ضرورت
باقی رہ جاتی ہے اور نا کسی کتاب کی ، کیونکہ فطرت اپنی تخلیقات کی تربیت کے گر سے
بخوبی آشنا ہے – مثال کے طور پر محبت اور رحم فطرت کی جانب سے عطا کردہ ایک تحفہ
ہے جس سے ہم صرف اسی وقت پہلو تہی کرتے ہیں جب ہمیں کوئی غیر فطری طریقے سے جینے
پر اکساتا ہے (یعنی کسی مذھب پر ایمان لانے پر اکساتا ہے ) یا جب ہمیں اپنے تحفظ
کی فکر لاحق ہوتی ہے- اگر میں کسی سڑک پر کسی کتے کے چھوٹے سے گول مٹول خوبصورت
بچے کو دیکھتی ہوں اور میں ذہنی طور پر نارمل بھی ہوں تو میرا دل خود بخود یہ چاہے
گا کہ میں اس بچے کو اٹھا کر پیار کروں ، اسے کھلاؤں پلاؤں اور اسے نہلا دھلا کر
صاف ستھرا کر دوں ، لیکن اگر میں فطرت سے بغاوت کرکے اپنے آبائی مذھب یعنی اسلام
پر ایمان لے آؤں تو سخت سردی اور بارش کی پروا نا کرتے ہوے اپنے گھر میں پناہ لینے
والے معصوم جانور کو گھر سے صرف یہ سوچ کر باہر نکال دوں گی کہ اسکی موجودگی میں
میرے گھر میں رحمت کے فرشتے نہیں آئیں گے –
اگر ہم اپنے تحفظ کی خاطر محبت اور رحم سے پہلو تہی کرتے ہیں تو یہ
فطری اصول کے عین مطابق ہے – مثال کہ طور سانپ انسان کو اس وقت کاٹتا جب اسے انسان
سے خوف محسوس ہوتا ہے اور شیر ہرن کا شکار اس وقت کرتا ہے جب اسکو بھوک لگتی ہے –
فطرت خدا ہے (Nature is God)
میں اگرچہ ایتھزم سے بہت نزدیک ہوں مگر اب بھی ایک اگناسٹک ہوں اور میری نظر میں اگر کوئی شے خدا کہلانے کی مستحق ہے تو وہ فطرت ہے جو خود ہی اپنی خالق ہے اور خود ہی اپنی مخلوق - جہاں تک یہ معاملہ کہ اگر فطرت خالق ہے تو اپنی چند مخلوقات کو اپنی دیگر مخلوقات پر مظالم سے کیوں نہیں روکتی ؟؟؟ تو اس سوال کا جواب بے حد سیدھا سادہ ہے :
فطرت منصف ہے (Nature is Justice)
فطرت کسی پر ظلم نہیں کرتی – اگر کوئی شخص حد سے زیادہ مظالم کا
شکار ہوتا ہے تو یہ اسکا اپنا قصور ہوتا ہے – مثال کے طور پر غربت ایک ظلم ہے جسکا
ذمہ دار عام طور پر کبھی سرمایہ دارانہ نظام یا جاگیر دارانہ نظام کو ٹہرایا جاتا
ہے تو کبھی سوشلزم کو – مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص فطری طور پر یہ بات
جانتا ہے اگر وہ ایک بچے کو دنیا میں لاۓ گا تو با آسانی اسے اچھی خوراک ، اچھا لباس ، اچھی
تعلیم اور علاج معالجے کی سہولیات بہم پہچا سکے گا اور اگر اسکے دس بچے ہونگے تو لازمی
طور پر اسکے پورے خاندان کو غربت کا عذاب سہنا پڑے گا - اسی طرح اگر کوئی شخص غریب
خاندان میں پیدا ہوا ہے مگر وہ فطرت کے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوے کسی احساس
کمتری میں مبتلا ہونے بغیر مستقل جدوجہد جاری رکھے تو جلد ہی غربت کو شکست دینے کے
قابل ہو سکتا ہے –
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان بعض اوقات ظلم کے خلاف لڑتے لڑتے
زندگی کی بازی ہار جاتا ہے مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ زندگی جہد مسلسل کا
دوسرا نام ہے یعنی ہر جاندار کو اپنی بقا کے لئے آخری سانس تک جدو جہد کرنی ہے ظلم
کے خلاف جدو جہد نا کرنا ایک غیر فطری عمل ہے جبکہ ظلم کے خلاف جدو جہد کرکے ظلم
سے نجات حاصل کر لینا یا اپنی جان دے دینا فطرت کے عین مطابق ہے –
جنت اور دوزخ (Heaven and Hell)
جہاں تک جنت اور دوزخ کا معاملہ ہے تو میں سمجھتی ہوں کہ فطری اصولوں کی پاسداری کرتے ہوے اپنے حق کے لئے لڑنے والے کی ظاہر ی حالت چاہے جیسی بھی کیوں نا ہو اس کا دل کبھی اطمینان سے خالی نہیں ہوسکتا اور دل کا اطمینان ہی جنت کا دوسرا نام ہے – اسی طرح غیر فطری نظریات یعنی مذاہب کی پاسداری کی خاطر دوسروں پر ظلم کرنے والے یا دوسروں کے مظالم سہنے والے کا دل کبھی اطمینان اور بے خوفی سے پر نہیں ہو سکتا اور دل کی بے اطمینانی اور خوف دوزخ کا دوسرا نام ہے -
فطرت ایک وحدت تحریر: گلریز شمسی -Article by Gulrez Shamsi Nature: A Unity |