جذبہِ محبت اور ارتقاء-Article by Usama Raza Love emotions and evolution-Jazba-e-mohbat aur irtqa

جذبہِ محبت اور ارتقاء
(Love emotions and evolution)
محبت کی حقیقت- سائیکالوجی کی روشنی میں
(Reality of love-In the light of Psychology)
تحریر: اسامہ رضا

آج کے اس جدید دور میں انسانی نفسیات (Psychology)کا مطالعہ لاکھوں برس پہلے گزرے  شب و روز کو احاطہ فہم میں لائے بغیر  غیر ممکن نظر آتا  ہے ۔  انسانی نفسیات چند ساعتوں میں عدم سے وجود کی کتھا نہیں بلکہ یہ داستان لاکھوں سالوں پہ محیط ہے ۔ میدانِ زماں میں ذہنِ انسانی پہ گرد و پیش کے وار اور ماحول کے گھاؤ آج بھی ماضی کے ٹھکانوں کا پتا دیتے ہیں اور اپنے کپکپاتے لبوں سے ارتقاء کی بے رحم اور باکرم کہانی سناتے ہیں ۔ 
انسانی نفسیات(Psychology) کی تشکیل ارتقاء کی آپ بیتی ہے۔ ماحول کی آندھیوں اور گرد و نواح کے طوفانوں نے انسانی ذہن میں پنپنے والے احساسات و جذبات کو وجود بخشا ہے۔ محبت ،غم ، غصہ ، خوشی، خوف تقریباً سارے احساسات و جذبات کا تعلق اور اس صورتحال میں پیدا ہونے والے رویوں کا تعلق بقائے نسلِ انسانی سے ہے۔اگر صرف خوف و خطر کے احساسات سے انسان محروم ہوتا تو نسلِ انسانی شاید لاکھوں برس پہلے ہی معدوم ہوچکی ہوتی ۔ مثلاً اگر جنگل میں بسنے والے انسان جنگلی جانوروں سے ڈرنا اور بچنا چھوڑ دیتے تو انکی اموات انکی اسی شجاعت کی بدولت یقینی تھی۔ اسی طرح جذبہِ الفت  بقائے نسلِ انسانی اور وجودِ نسلِ انسانی کا بیڑا اٹھایا ہوئے ہے۔ محبت بھی فطرت کا سفرِ ارتقاء کے دوران  بقاء کا ہتھیار ہے۔اپنی بقاء کیلئے تبدل و تغیر کے سمندر میں غوطہ زن ہونے والے صرف انسان ہی نہیں ۔ Galapgos کے جزیروں میں پائی جانے والی سنہری چڑیا کی چونچ سے لیکر زرافوں کی لمبی گردن تک ماضی میں ماحول کے مطابق ہونے والی تبدلیوں کی داستانیں ہیں جو  بقائے زیست کیلئے لازم و ملزوم تھیں۔
انسانوں میں پائے جانے والا جذبہ الفت بھی بقائے ہستی کی ضروریات کی طرف اشارہ کرتا ہے اگر نظریہ ارتقاء کی سیڑھی پر چڑھ کر ماضی کی طرف جھانکا جائے تو چیزیں اپنی ضرورت و مقصدیت کے تناظر میں نظر آئیں گی اور فطرت کی رنگین چالیں اپنے اصل رنگ میں بے نقاب نظر آئیں گی۔ بقاء   وجودِ نسلِ انسانی کی کہانی انسانی جبلت و سرشت میں پنہاں جذبہِ الفت کی مصلحتی کہانی کا پول کھولتی نظر آتی ہے ۔ محبت چونکہ جذبات و احساسات کا نام ہے اور جذبات احساسات دماغ کے مرہونِ منت ہیں اس لیئے یہ محبت کا وجود زمین پر زندگی کے شروع ہونے کے کچھ بلین سال بعد ہوا ۔ دماغ کی مبتدا چند سیلز کا مجموعہ ہی تھا جو مل کے کام کرتا تھا لیکن بتدریج اس میں پیچدگی اور اضافہ ہوتا گیا۔
زمین پر تقریباً ساٹھ سال قبل primates یعنی ہمارے خاندان کی پہلی پرجاتی کا ظہور ہوا انکے دماغ کا سائز Mammals کے مقابلے بڑا تھا اور سر کے بڑے ہونے کی وجہ  بچے کا جائے پیدائش سے نکلنا مشکل ہوتا تھا  اس  لئے  ان میں پیدائش کا عمل بچے کی مکمل نشو نما سے قبل ہی ہوجایا کرتا تھا۔ اس لیے انکی نشو و نما کیلیئے ماں کو بچے کو سہارا دینا ضروری ہوتا تھا۔ اور پرائمیٹس میں چونکہ ماں بچے  کی پرورش کیلئے مختص رہ جایا کرتی تھی اس لیے نر پرائمیٹس کو نو مولود بچے کو قتل کرکے ملاپ و جماع تک رسائی کی سیڑھی چڑھنا ہوتی تھی۔ اس لیے ابتدا میں جماع اور جنسی بھوک مٹانے کیلیئے مقتل سے گزر کر جانا ہوتا تھا ۔ لیکن پیرامیٹس کے جن گروہوں میں Monogamous یعنی مشترکہ و باہمی تعاون سے رہنے کا معاہدہ طے پایا بقائے فطرت کے قانون انکو بقاء کی سیڑھی چڑھایا۔ اور انکی بقاء میں باہمی تعاون اور محبت کا عنصر بھی شامل تھا ۔ اسکو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کے نو مولود بچوں کے قتل کے خاتمے کیلیئے فطرت نے نر و مادہ میں جنسی ملاپ کے علاوہ مل کے کام کرنے اور پیار سے رہنے کی خصلت کو پروان چڑھایا ۔ جس سے نہ صرف قتال قابو ہوا بلکہ بقائے نسل کا سلسلہ بھی بلا خیز سرعت سے شروع ہوگیا۔ بقاء کے اصولوں میں Monogamy کو قانونی حیثیت ہوئی جبکہinfanticide نومولود کش رویے کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔جبکہ محبت کی ابتدا کی دوسری توجہیہ یہ پیش کی جاتی ہے چونکہ پیرامائٹس کے درمیان صرف جنسی ملاپ کا رشتہ تھا اور اسکے علاوہ کوئی قوت انکو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں کرسکتی تھی لیکن نر پیرامائٹس اس لیے مادہ کے ساتھ رہنا شروع ہوگئے تا کے انکے ساتھ کوئی اور نر جماع نہ کرسکے اس حفاظتی اقدام سے نہ صرف بچوں کو نشوونما کا موقع ملا بلکہ نر و مادہ کے درمیان جنسی ملاپ سے بڑھ کر الفت دوستانہ کا رشتہ قائم ہوا جو فضائے بقاء کے حق میں تھا۔
ارتقاء کے سفر کے دوران جو دماغ کے سائز میں تغیرات آئے وہ جذبہِ محبت اور اس طرح کے پیچدہ جذبات کے موجد ہیں آج سے تقریباً دو ملین سال قبل دندنانے والے Homoerectus کے دماغ کا حجم اپنے آباواجداد سے کافی حد تک بڑا تھا ۔ایک تحقیق کے مطابق دماغ کے جس حصے پر الفت و محبت کے جذبات کا انحصار ہوتا ہے وہ Angular gyrus ہے جو صرف انسانوں اور بڑے Apes میں ہی پایا جاتا ہے۔جبکہ محبت و وارفتگی کی تیسری توجہیہ جنسی ملاپ سے ملنے والی راحت و مسرت میں مضمر ہے۔ دماغ میں موجود Limbic system  اور insula اور دماغ کا نظامِ انعام یعنی ریواڈ سسٹم ( (ventral striatum)  فعال  ( Active )  ہوجاتے ہیں ۔ جب کبھی کوئی اچھی چیز یا مفید چیز سے سامنا ہوتا ہے تو دماغ سے ڈوپامیں (Dopamine) کیمیکل کا اخراج ہوتا ہے اس کیمیکل کا اخراج خوشی و مسرت اور راحت کا باعث ہوتا ہے ۔ جماع کے دوران راحت و مسرت کا سامان پیدا کرنے والا یہی کیمیکل ہوتا ہے۔ اور جماع کے دوران ایک خاص ہارمون آکسی  ٹاکسن (Oxytocin) کا اخراج ہوتا ہے جو اس راحت و مسرت کے احساس کو جاودانی بخشنے کیلیئے ہمیشہ ساتھ اور پاس رہنے جیسی خواہشوں سے بھر دیتا ہے اور یہی الفت کا باعث ہوتا ہے۔یعنی جنسی محبت ہی با ہر طور مقصدیت و منشاء ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے ہی کبھی کسی بیس سالہ جوان کو کسی اسی سالہ بوڑھی سے محبت نہیں ہوتی چونکہ وہ جنسی طور پر پر کشش نہیں ہوتی ۔ اس لیے جہاں جنسی تشنگی ہوگی وہاں ہی محبت پاکیزگی کی چادر اوڑہے فطرتی امور سر انجام دے گی۔چونکہ افزائشِ نسل کا عمل جنسی ملاپ کے مرہونِ منت ہے اس لیے فطرت نے دو مخالف جنسوں میں کشش کا عنصر رکھا یہ کششِ لاثانی اگرچہ مائلِ مرکز کشش سے کہیں قوی ہے   لیکن جنسی تشنگی کی پیاس بجھتے ہی سفر خط  مماس (Tangent ) کی  سمت میں شروع ہوسکتا ہے۔ یعنی ملاپ صرف جنسی بھوک مٹانے تک محدود ہو کر رہ جاتا  ۔کثیر تعداد  میں ایسی    انواع  بھی ہیں جن میں صرف الفت صرف جنسی ملاپ تک محدود ہوتی ہے اس میں ملاپ اور جنسی پیاس بجھانے کے بعد ایک دوسرے کو باطل خیال کی طرح بھلا دیا جاتا ہے چونکہ ان انواع میں بچوں کی پرورش میں ماں کا زیادہ کردار نہیں ہوتا اور انکے بچے تقریباً پہلے دن سے ہی خود ساز ہوتے ہیں ۔ جیسے کے ہرن کے بچے اپنی پیدائش کے کچھ دیر بعد ہی اپنے قدموں پر چلنا شروع کردیتے ہیں ۔ اس لیے ایسے جانوروں کیلیئے محبت صرف جنسی پیاس تک محدود ہوتی ہے۔ لیکن دنیا میں موجود کچھ  ایسی انواع ہیں جن کی ملاپ کے نتیجے میں ہونے والے بچے اپنے ابتدائی دور میں بہت حد تک ماں باپ کے محتاج ہوتے ہیں ۔ مثلاً انسانی بچہ پیدا ہوتے ہی چل پھر نہیں سکتا خود کھا پی نہیں سکتا اسکی پرورش اور اسکی بقاء کا انحصار ماں باپ پر ہوتا ہے۔ اس لیے بقائے نسلِ انسانی کیلئے ضروری تھا کے جنسی جماع کیلیئے کھینچنے والی کشش کے علاوہ بھی انکے درمیان کوئی تعلق ہو جو جنسی پیاس بجھ جانے کے بعد بھی جوڑوں کو آپس میں جوڑے اور باندھے رکھے تا کہ بچے اس محتاجی کی حالت میں اپنے والدین قربت اور اپنائیت کے احساس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اگرچہ الفت کا آغاز جنسی تشنگی کو بجھانے کیلئے ہوتا ہے لیکن ملاپ کے وقت خارج ہونے والا آکسی ٹاکسن کیمیکل دونوں محب و محبوب کو الفت کی زنجیر سے باندھے رکھتا ہے نا صرف آپس میں انکو یک جان بناتا ہے بلکہ ممتا اور اسکی اولاد میں بھی بے مثل رشتہ قائم کردیتا ہے تاکہ ممتا کی شفقت و محبت سے نسلِ انسانی کی افزاش کا عمل جاری رہے۔ جذبہِ الفت جنسی پیاس بجھانے کے بعد بھی جوڑوں کو ایک دوسرے کی مدد ، ایک دوسرے کی قربت میں رہنے ایک دوسرے کے بہت پاس رہنے اور اولاد کی پرورش کیلئے مضبوط نیوکلیئر فورس کی مانند جوڑے رکھتا ہے۔ 
اگر اب نفسیات کی سائنس میں محبت کے وجود پر اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دیں تو ہاں محبت وجود رکھتی ہے۔ اور یہ سچی محبت ہی ہوتی ہے لیکن یہ فطرت کا ایک امر ہے فطرت کی بقائے نسل کی ایک رنگین چال ہے ۔ 

جذبہِ محبت اور ارتقاء-Article by Usama Raza Love emotions and evolution-Jazba-e-mohbat aur irtqa

جدید تر اس سے پرانی