سٹیریو
ویژن Stereo
Sue Barry))
ترجمہ و تلخیص: قدیر
قریشی
ہم جانتے کہ ہماری دنیا تھری ڈائمنشنل ہے۔ہم تینوں ڈائمنشنز میں اشیا کو دیکھ سکتے ہیں اور نزدیک اور دور کی اشیا میں تفریق آسانی سے کر سکتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہماری آنکھوں کے پردہ بصارت پر جو شبیہہ بنتی ہے وہ ٹو ڈائمنشنل ہوتی ہے۔ دائیں آنکھ اور بائیں آنکھ کے درمیان چند سینٹی میٹر کا فاصلہ ہے۔اس لیے دائیں آنکھ پر بننے والی شبیہہ بائیں آنکھ پر بننے والی شبیہہ سے کچھ مختلف ہوتی ہے۔اس معمولی سے فرق سے دماغ ڈیپتھ پرسیپشن پیدا کرتا ہے یعنی دو ٹو ڈائمنشنل شبیہوں کے تقابلی جائزے سے دماغ ہمارے شعور کو تھری ڈائمنشنل بصارت کا تجربہ فراہم کرتا ہے۔لیکن تھری ڈائمنشنل بصری تجربے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہماری دونوں آنکھیں ایک ہی مقام پر فوکس کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ اگر کسی وجہ سے آنکھوں کی سمت کو کنٹرول کرنے والے مسلز میں کچھ مسئلہ ہو تو دونوں آنکھوں کو ایک ہی مقام پر فوکس کرنا ناممکن ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو دائیں اور بائیں آنکھ کے پردہ بصارت پر جو شبیہیں بنیں گی ان میں فرق بہت زیادہ ہو گا اور دماغ ان سے تھری ڈائمنشنل تجربہ نہیں اخذ کر پائے گا۔
سو بیری (Sue Barry) ایک ایسی ہی خاتون تھیں جن کی آنکھوں میں پیدائشی طور پر نقص تھا جس وجہ سے دونوں آنکھیں ایک ہی سمت میں نہیں دیکھ پاتی تھیں بلکہ ہمیشہ دو مختلف سمتوں میں دیکھتی تھیں۔ چنانچہ ان کے دماغ نے دونوں شبیہوں کو ایک دوسرے پر سپر امپوز کرنے کے بجائے ان پر الگ الگ توجہ دینا سیکھ لیا تھا اور لاشعوری طور پر کبھی ایک آنکھ اور کبھی دوسری آنکھ پر توجہ دیتا تھا۔ یہ خاتون بالکل نارمل زندگی گذارنے کے قابل تھیں، گاڑی چلاتی تھیں، سپورٹس میں حصہ لیتی تھیں، اور بھرپور زندگی گذار رہی تھیں۔ انہیں خود احساس تھا کہ ان کے پاس ڈیپتھ پرسیپشن نہیں تھی یعنی وہ دنیا کو تھری ڈائمنشنل نہیں دیکھتی تھیں لیکن اکثر اوقات اپنے چہرے کا زاویہ تبدیل کر کے یا ہل جل کر اشیا کو مختلف زاویوں سے دیکھ کر منظر کی ڈیپتھ کا اندازہ لگا لیتی تھیں تاکہ ان کا کام چل جائےان کے والدین کو ان کی پیدائش کے چند ماہ بعد ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ سو بیری کی آنکھیں مختلف سمتوں میں دیکھتی ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹروں سے مشورہ کیا لیکن ڈاکٹروں نے انہیں کچھ سال انتظار کرنے کو کہا کیونکہ اکثر بچوں میں یہ کنڈیشن وقت کے ساتھ ساتھ خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ اگر بچوں کی آںکھیں بچپن میں ہی ٹھیک ہو جائیں تو دماغ چند ماہ میں خود بخود آنکھوں میں بننے والی شبیہوں سے تھری ڈائمنشنل امیج اخذ کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن اگر بچپن میں یہ کنڈیشن ٹھیک نہ ہو تو بلوغت کے بعد اس کنڈیشن کا علاج عموماً ممکن نہیں ہوتا۔
جب ان کی آنکھیں دو
برسوں تک ٹھیک نہیں ہوئیں تو دو سال کی عمر میں ان کی دائیں آنکھ کا آپریشن کر کے
اس آنکھ کے مسلز کو درست کرنے کی کوشش کی گئی۔ سات سال کی عمر میں بائیں آنکھ کی
پوزیشن بھی درست کر دی گئی۔ نو سال کی عمر میں ان کے سرجن نے انہیں کہا کہ اب ان
کی بصارت میچور ہو چکی ہے اور اب وہ ہر وہ کام کرنے کے قابل ہیں جو کوئی بھی نارمل
شخص کر سکتا ہے۔
اگرچہ ان کی آنکھوں کی ظاہری پوزیشن درست ہو چکی تھی لیکن سو بیری کو کچھ کچھ احساس تھا کہ ان کی نظر باقی لوگوں سے قدرے مختلف ہے۔ کالج میں انہوں نے نیوروفزیالوجی کا کورس لیا۔ ان کی لیب میں ایک انسٹرومنٹ تھا جس میں ان کے پروفیسر کے بیان کے مطابق بیکٹیریا کی تصاویر تھری ڈائمنشنل نظر آتی تھی۔ سو بیری نے یہ انسٹرومنٹ استعمال کرنے کی بہت کوشش کی لیکن انہیں ہمیشہ دو الگ الگ شبیہیں ہی نظر آتی رہیں جبکہ باقی تمام سٹونٹس آسانی سے بیکٹیریا کی تھری ڈائمنشنل تصویر دیکھ پاتے تھے۔ اس کورس میں سو بیری کو پہلی دفعہ یہ واضح احساس ہوا کہ ان کی بصارت تھری ڈائمنشنل نہیں ہے۔
ان واقعات کو 25 سال
گذر چکے ہیں۔ سو بیری اب انتہائی اعلی تعلیم یافتہ ہیں، نیوروبیالوجی میں پی ایچ
ڈی کر رکھی ہے اور ایک یونیورسٹی میں نیوروبیالوجی پڑھاتی ھیں۔ انہیں دماغ میں
بصری سگنل کی پراسیسنگ سے متعلق تمام تفصیلات معلوم ہیں۔ دماغ دونوں آنکھوں کی
شبیہوں سے تھری ڈائمنشنل تجربہ کیسے پیدا کرتا ہے اس کی تمام جزئیات سے واقف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام معاملات سمجھنے کی وجہ سے انہیں یہ بالکل معلوم تھا کہ
ان کے تجربے میں کیا کمی ہے اور تھری ڈائمنشنل بصارت کیسی ہوتی ہو گی اگرچہ انہیں
خود کبھی تھری ڈائمنشنل بصارت کا تجربہ نہیں ہوا۔
جب ان کی عمر پچاس سال کے قریب پہنچنے لگی تو سو بیری کی نظر کمزور ہونے لگی (جیسا کہ اس عمر میں کم و بیش ہر فرد کے ساتھ ہوتا ہے) اور انہیں بلیک بورڈ پر لکھے الفاظ دیکھنے میں دشواری ہونے لگی۔انہوں نے بائی فوکل لینز لگوانے کا سوچا (جس میں دور کی نظر اور نزدیک کی نظر کے لینز ایک ہی عینک میں نصب ہوتے ہیں)۔ انہوں نے ایک آنکھوں کے ڈاکٹر سے رابطہ کیا جنہوں نے سو بیری کی آنکھوں کا تفصیلی معائنہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ وہ واقعی ڈیپتھ پرسیپشن نہیں رکھتیں اور اشیا کو کبھی ایک آنکھ اور کبھی دوسری آنکھ سے باری باری دیکھ کر فاصلوں کا اندازہ لگاتی ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر نے انہیں یہ بھی بتایا کہ ان کی دونوں آنکھیں اب بھی misaligned ہیں اور ایک آنکھ ذرا اوپر کی طرف دیکھتی ہے اور دوسری ذرا نیچے کی طرف۔ اس وجہ سے انہیں الفاظ پر فوکس کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔
اس خرابی کو دور کرنے
کے لیے ڈاکٹر نے ان کی عینک کے دائیں شیشے کے سامنے ایک پرزم یعنی منشور نصب کر
دیا جو آنکھ پر بننے والے عکس کو ذرا سا اوپر کر دیتا ہے اور یوں ان کی دائیں اور
بائیں آنکھ کا لیول بالکل ایک سا ہو گیا۔ اس نئی عینک کے ساتھ ان کے ڈاکٹر نے ان
کی ویژن تھیراپی کا بھی آغاز کیا جس میں ان کی دونوں آنکھوں میں دو مختلف امیجز
بنائے جاتے اور سو بیری کو انہیں 'یکجا' کرنے کو کہا جاتا۔تھیراپی کے آغاز میں سو
بیری کو بالکل بھی سمجھ نہیں آئی کہ دو امیجز کو یکجا کرنے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ لیکن چند گھنٹوں کی مشق سے انہوں نے ان دونوں امیجز کو یکجا کرنا سیکھ لیا۔ اب
انہیں دونوں آنکھوں سے الگ الگ امیج نظر آنے کے بجائے ایک ہی مشترکہ امیج نظر آ
رہا تھا اگرچہ اس میں انہیں کسی گہرائی یعنی depth کا کوئی احساس نہیں ہو رہا تھا۔
ڈاکٹر نے انہیں گھر پر کرنے کے لیے آںکھوں کی کئی ورزشیں بتائیں جن سے آنکھوں پر ان کا کنٹرول بہتر ہو جائے۔دو ہفتے بعد ڈاکٹر کی اگلی اپوئنٹمنٹ میں انہیں مزید ورزشیں کروائی گئیں تاکہ سو بیری کی دونوں آنکھیں ایک ہی مقام پر فوکس کرنا سیکھ جائیں۔اس سیشن کے خاتمے کے بعد جب سو اپنی کار میں بیٹھیں تو اچانک انہیں ایک عجیب تجربہ ہوا۔ ان کی کار کا سٹیرنگ انہیں سپیس میں معلق (یعنی تھری ڈائمنشنل) نظر آنے لگا جب کہ اس سے پہلے وہ ڈیش بورڈ کے ساتھ فلیٹ (یعنی ٹو ڈائمنشنل) محسوس ہوتا تھا۔ ایسا کچھ ہی دیر کے لیے ہوا اور اس کے بعد انہیں سٹیئرنگ وہیل نارمل (یعنی ٹو ڈائمنشنل) نظر آنے لگا۔ اگلے دن انہوں نے آنکھوں کی مزید ورزش کی اور جب ورزش کرنے کے بعد جب وہ کار میں بیٹھیں تو ان کو rear-view mirror (یعنی وہ شیشہ جس میں ڈرائیور پچھے آنے والی گاڑیوں پر نظر رکھتا ہے) ہوا میں معلق یعنی تھری ڈائمنشنل نظر آنے لگا۔
آہستہ آہستہ ان کی آنکھیں درست فوکس کرنا سیکھنے لگیں اور انہیں ہر روز پہلے دن سے زیادہ چیزیں تھری ڈائمنشنل نظر آنے لگیں۔ اپنی پلیٹ میں موجود کھانا اب انہیں ابھرا ہوا نظر آنے لگا اور پلیٹ اور چمچ کے درمیان فاصلہ صاف واضح ہونے لگا۔ اپنے آفس میں کھلنے والا دروازہ اپنی طرف ابھرا ہوا محسوس ہونے لگا۔ انہیں یہ تو اندازہ پہلے بھی تھا کہ یہ دروازہ ان کی طرف ابھرا ہوا ہو گا کیونکہ انہیں دروازے کی شکل و صورت کا علم تھا، لیکن پہلے وہ کھلا دروازہ بھی صرف ویسا ہی دیکھ پاتی تھیں جیسا ہمیں کسی تصویر میں نظر آتا ہے یعنی ٹو ڈائمنشنل۔ انہیں سب سے زیادہ حیرت اس وقت ہوئی جب وہ اپنے آفس کی نچلی منزل میں گئیں جہاں ایک گھوڑے کا ڈھانچہ نصب تھا۔ وہ یہ ڈھانچہ روز دیکھتی تھیں لیکن آج جب انہوں نے گھوڑے کی کھوپڑی اپنی طرف بڑھی ہوئی دیکھی تو وہ ہڑبڑا اٹھیں۔
صبح جاگنگ کرتے ہوئے
انہیں درختوں کے پتے الگ الگ نظر آنے لگے اور پتوں کے درمیان فاصلہ بھی بخوبی نظر
آنے لگا۔ انہیں ڈرائیونگ یکایک بہت آسان معلوم ہونے لگی کیونکہ اب وہ اپنی کار اور
اگلی کار کا فاصلہ 'دیکھ' سکتی تھیں۔ پہلے انہیں اپنی کار اور اگلی کار ایک ہی جگہ
معلوم ہوتی تھی اور وہ صرف اگلی کار کی ظاہری جسامت سے ہی اس کے فاصلے کا اندازہ
لگاتی تھیں۔ اب وہ اپنی کار اور اگلی کار کے درمیان فاصلے کو محسوس کرنے کے قابل ہو
گئی تھیں۔
ڈاکٹر سو بیری اب بھی
تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں لیکن اب وہ ساتھ ہی ساتھ اپنے تجربات بھی مختلف فورمز
میں لوگوں کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ان کا یہ کہنا ہے کہ
انہیں تھری ڈائمنشنل بصارت ملنے سے پہلے یہ کتابی علم تو تھا کہ لوگوں کی تھری
ڈائمنشنل بصارت کیسی ہوتی ہے اور ان کا خیال تھا کہ وہ بخوبی سمجھ سکتی ہیں کہ
نارمل لوگوں کا تھری ڈائمنشنل بصارت کا تجربہ کیسا ہو گا۔ لیکن جب خود انہیں تھری
ڈائمنشنل بصارت ملی تو انہیں احساس ہوا کہ انہیں تو بالکل اندازہ ہی نہیں تھا کہ
تھری ڈائمنشنل بصارت کا تجربہ کیسا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر سو بیری کی کہانی ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہم اکثر کسی کو مشکل میں دیکھتے ہیں تو ہمدردی جتانے کے لیے یہ کہہ دیتے ہیں 'میں آپ کا دکھ سمجھ سکتا ہوں' لیکن کیا ہم واقعی کسی دوسرے شخص کے تجربے کو محسوس کر سکتے ہیں؟ ہماری سوچ صرف ہمارے اپنے تجربات سے ہی متعین ہوتی ہے۔ دوسروں کے تجربات کے بارے میں ہم صرف دوسروں سے سن کر ہی جان سکتے ہیں۔لیکن کسی شخص کے اندرونی تجربے کے بارے میں اس شخص کا بیان سننا اس شخص کے اندرونی تجربے کو محسوس کرنے کے مترادف نہیں ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ کیا ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ واقعی حقیقت ہے یا محض ہمارا واہمہ ہے اور 'اصل حقیقت' ہماری تجرباتی حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ایسے گہرے سوالات ہیں جن پر فلسفہ دان ہزاروں سالوں سے سر کھپا رہے ہیں لیکن ابھی تک ان سوالات کا نہ صرف کوئی جواب معلوم نہیں ہے بلکہ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ ان سوالات کے جواب کیسے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
سٹیریو ویژن (Stereo Sue Barry)ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی Article by Qadeer Qureshi Stereo Sue Barry |