سر
زیر بار منت درباں کئے ہوئے(A request to Atheists and Anti-Atheists)
تحریر : گلریز شمسی
اگر چہ میں الحادیوں(Atheists) اور لبرلز (Liberals)کے رویے سے دل برداشتہ بہت ہوں مگر مایوسی کے اس درجے پر تاحال نہیں پہچی کہ الحاد کو مذہبی کاروبار کی ایک شاخ سمجھنا شروع کردوں۔جہاں تک میں جانتی ہوں دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں الحاد کو حکومتی سطح پر سراہا جاتا ہو یا ملحدوں کی مدد کی جاتی ہو حتی کہ اسکینڈی نیوین ممالک جن میں ناروے سوییڈن، ڈنمارک اور شاید فن لینڈ بھی شامل ہیں اور جن کی مقامی آبادی کی بڑی تعداد ملحدوں اور غیر مذہبی افراد پر مشتعمل ہے وہاں بھی ایک دوست کے مطابق حکومتی سطح پر مذہبی تنظیموں ہی کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ لہذا میں نہیں سمجھتی کہ الحاد اختیار کرکے کوئی خاطر خواہ مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہین کہ الحاد اختیار کرکے یورپی شہریت بہت آسانی سے مل جاتی ہے مگر میرا نہیں خیال کہ ایسی کوئی بات ہے یورپی شہریت تو الحاد اختیار کیئے بغیر برقع پہن کر اور ڈاڑھی رکھ کر بھی بہت سے لوگوں نے حاصل کی ہے ۔جن ملحدوں نے یورپی ممالک میں پناہ حاصل کی ہے وہ بھی الحاد کی بیس پر حاصل نہیں کی بلکہ اسلئے حاصل کی کیونکہ وہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے تھے کہ انکو واقعی انکے ممالک میں جان کا خطرہ تھا۔ اگر وہ ایسا کرنےمیں ناکام رہتے تو یقینی طور پر انہیں پناہ نہیں مل سکتی تھی ۔عام خیال یہ ہے کہ آپ اپنی زبان سے فقط اتنا نکال دیں کہ آپ ملحد ہیں لہذا آپ کو دھمکیاں مل رہی ہوں اور پورے یورپ کے سفارت خانے آپ کے پاسپورٹ پر ویزہ لگانے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگائیں گے مگر یہ خیال بلکل غلط ہے جان کے خطرے کے پیش نظر صرف ملحد ہی پنا ہ نہیں لیتے بلکہ وہ بھی لیتے ہیں جنکا ایمان بظاہر سلامت ہے مثال کے طور آسیہ بی بی عیسائی اور ملالہ مسلمان ہے ۔ اگر آپ ملحد ہیں اور دولت کمانے کے شوقین ہیں تو فقط ملحد بن کر آپ دولت نہیں کما سکتے الحاد کی بیس پر دولت کمانے کے لے آپ کو کچھ خاص کرنا پڑے گا جیسا کہ تسلیمہ نسرین اور رشدی نے کیا متنازعہ کتابیں لکھ کر یا ڈاکنز نے کیا گاڈ ڈیلیوژن لکھ کر ۔ انکی کتابیں دھڑا دھڑ فروخت ہوئیں اگر آپ میں ایسی کوئی صلاحیت نہیں ہے تو آپ الحاد کی بیس پر دولت کمانے کے اہل نہیں ہیں الحاد کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے ۔
ملحدوں کے بجائے اگر صرف لبرلز کی بات کی جاے تو دنیا بھر کے لبرلز کا خاص طور پر مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے لبرلز کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ انسانی ہمدردی اور انسانیت کے نام پر مذہبیوں اور جرائم پیشہ افراد کے ظلم و ستم اور غنڈہ گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور سیکولر ازم کے دشمن بنے ہوئے ہیں یعنی جس شاخ پر بیٹھے ہیں انسانی ہمدردی نامی آرے سے اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں۔ اور سونے پر سہاگا یہ کہ پاکستانی ملحدین اور لبرلز یورپی لبرلز کو عقل کل سمجھ کر انکی پیروی عبادت سمجھ کر رہے ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں الحادی اور لبرل سرگرمیاں سر پر سوار اسلامی ڈنڈے کے باعث چونکہ حد سے زیادہ محدود ہیں لہذا یہ لبرلز اقلیتوں کو مذہبی آزادی دلانے کی خاطر انکے ساتھ مل کر مغربی لبرلز کی طرح شہروں کو آگ تو نہیں لگا سکتے مگر انسانیت کے نام پر مذہبیوں کے نازک نازک گلاب جیسے دلوں کو ٹوٹنے سے بچانے کے لیے اپنے جیسے دیگر ملحدین کی زبانیں ضرور کاٹ سکتے ہیں اور مستقبل میں اپنی آنے والی نسلوں کی سر بریدگی کی راہ بھی ہموار کرسکتے ہیں۔
سر زیر بار منت درباں کئے ہوئے تحریر : گلریز شمسی Article by Gulrez Shamsi A request to Atheists and Anti-Atheists |