بلیک ہول کا ڈنر(Dinner of the Black hole)
ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
ہمارے نظام شمسی سے 21
کروڑ نوری سال دور ایک کہکشاں کے مرکز میں ایک supermassive بلیک ہول(Black hole) ایک ستارے کو ہڑپ کرنے کے عمل میں مصروف تھا کہ اس کی
بھنک سائنس دانوں کے کانوں میں پڑ گئی۔ ماہرین نے کئی زمینی اور سپیس دوربینوں کا
رخ اس ڈنر پارٹی کی طرف کر دیا اور بلیک ہول کے ستارہ ہڑپ کرنے کے عمل کا لحظہ بہ
لحظہ جائزہ لیا۔ اس سے پہلے ہم سے اس قدر قریبی کہکشاں میں ایسا منظر دیکھنے کو
نہیں ملا تھا۔ اس منظر کو tidal disruption event کہا جاتا ہے۔
ٹائیڈل ڈسرپشن (Tidal disruption):
جب کوئی ستارہ بلیک ہول
کے بہت پاس چلا جائے تو ستارے کی اس سمت پر بلیک ہول کی کشش بہت زیادہ ہوتی ہے جو
بلیک ہول کی طرف ہے با نسبت اس سمت کے جو بلیک ہول سے دور ہے۔ ستارے کے مختلف حصوں
پر کشش ثقل میں فرق اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ستارے کی گریویٹی اپنے آپ کو کروی شکل
میں نہیں رکھ پاتی اور ستارے میں موجود مادہ ایک لمبی ٹیوب کی صورت اختیار کرنے
لگتا ہے جو ایک قوس کی شکل میں بلیک ہول کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔ اس پراسیس کو tidal disruption کہا جاتا ہے۔ بلیک ہول
کے پاس یہ
tidal disruption اس
قدر شدید ہوتی ہے کہ کچھ سائنس دان اس مظہر کو spaghettification کا نام دیتے ہیں جس میں اشیا کی شکل سَوَیّوں کی طرح بے انتہا لمبی
اور پتلی ہو جاتی ہے۔ یہ مادہ سویوں کی صورت میں بلیک ہول کے گرد گردش کرنے لگتا
ہے
جیسے جیسے یہ میٹیریل بلیک ہول کے پاس پہنچتا ہے، آپسی رگڑ سے اس کا درجہ حرارت بے انتہا زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ کثیر مقدار میں توانائی خارج کرنے لگتا ہے جسے کروڑوں نوری سال دور سے بھی ڈیٹیکٹ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین مشاہدات:
ان تازہ ترین مشاہدات میں سائنس دانوں نے عین ایسے ہی مظہر کو ریکارڈ کیا۔ یہ بلیک ہول جس کہکشاں میں ہے وہ Orion Constellation کی سمت میں ہے اور ہمارے نکتہ نظر سے Rigel ستارے کے پاس نظر آتی ہے (اگرچہ Rigel ہماری ملکی وے کہکشاں میں ہے اور ہم سے 865 نوری سال دور ہے جبکہ یہ کہکشاں ہم سے 21 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہے)۔ اس بلیک ہول میں ضم ہونے والا ستارہ ہمارے سورج سے بڑا تھا۔ ان مشاہدات کے دوران اس ستارے کا آدھے سے زیادہ ماس رفتہ رفتہ اس بلیک ہول میں گر گیا۔ عام طور پر ایسے مظاہر میں جب بہت سا مادہ بلیک ہول میں گرنے لگتا ہے تو اس کا کچھ حصہ بلیک ہول کے قطبین سے گرد و غبار اور برقی مقناطیسی شعاعوں کی صورت میں خارج ہونے لگتا ہے۔ یہ گرد و غبار بلیک ہول کے ارد گرد دور دور تک پھیل جاتا ہے جس سے اس مظہر کو دیکھنا ممکن نہیں رہتا۔لیکن اس دفعہ خوش قسمتی سے سائنس دانوں کو بہت جلد یہ علم ہو گیا کہ اس بلیک ہول کے نواح میں توانائی خارج ہو رہی ہے اس لیے دنیا کی کئی زمینی اور خلائی دوربینوں سے اس توانائی کے اخراج کا مشاہدہ کیا گیا۔ سائنس دانوں کو جلد ہی یہ احسا ہو گیا کہ بلیک ہول ایک ستارے کو ہڑپ کرنے والا ہے۔چنانچہ کئی دوربینوں سے اس پراسیس کا آغاز سے اختتام تک تفصیلی مشاہدہ کیا گیا جو کئی ماہ کے عرصے پر محیط تھا۔ یہ مشاہدات عام روشنی یعنی visible spectrum کے علاوہ الٹرا وائلٹ اور ایکس رے سپیکٹرمز میں کیے گئے جو چھ ماہ تک جاری رہے۔
ان مشاہدات سے بلیک ہول میں گرنے والے مادے اور اس سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی شعاعوں کے آپسی کنکشن کو سمجھنے میں مدد ملی۔ سائنس دانوں نے اس ستارے کے میٹیریل کو بلیک ہول کی طرف جاتے، اس میٹیریل کا درجہ حرارت بڑھتے، بلیک ہول میں گرتے اور پھر بلیک ہول کے گرد دھول کا بادل چھاتے دیکھا جو دس ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے پھیل رہا تھا۔
ستاروں کے اندرونی
سٹرکچر کا مشاہدہ:
ان مشاہدات سے سائنس دانوں کو ستاروں کے اندرونی سٹرکچر سے متعلق سائنسی نظریات کو پرکھنے کا بھی موقع ملا۔ بڑے ستاروں کے کور میں (جہاں فیوژن کا پراسیس ہو رہا ہوتا ہے) آئرن، آکسیجن، اور نائیٹروجن وغیرہ کے مرکزے پائے جاتے ہیں ۔ کور سے باہر کی پرتوں میں کاربن کے مرکزے کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں جو اس ستارے کی ماضی میں ہیلیئم کے فیوژن کی وجہ سے بنے اور اب اس کی مرکز سے دور کی پرتوں میں موجود ہوتے ہے۔ سب سے باہر کی پرتوں میں صرف ہائیڈروجن اور ہیلیئم پائی جاتی ہے جو ستارے کی تشکیل کے وقت سے موجود ہوتی ہے لیکن مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے کبھی فیوژن کے پراسیس میں حصہ نہیں لے پاتی۔اس ٹائڈل ڈسرپشن کے پراسیس کے آغاز میں سائنس دانوں کو ہائیڈروجن اور ہیلیم پر مشتمل پلازمہ بلیک ہول کی طرف جاتا دکھائی دیا جب بلیک ہول کی گریویٹی کی وجہ سے اس ستارے کی بیرونی پرتیں ستارے سے الگ ہو کر بلیک ہول کی طرف بڑھنے لگیں۔ چند ماہ بعد کاربن کے مرکزے بلیک ہول کی طرف بڑھتے دکھائی دیے اور پھر آخر میں بڑے مرکزے مثلاً آکسیجن، سلیکون، نیئون، سوڈیم، میگنیشیم وغیرہ بلیک ہول کی طرف جاتے دکھائی دیے۔ اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ سائنس دانوں کو کسی ستارے کے اندرونی سٹرکچر کا براہِ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا اور یہ سٹرکچر سائنس کے نظریات کی پیش گوئیوں کے عین مطابق پایا گیا۔
سائنس کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ ایک پورے ستارے کے بلیک ہول میں ضم ہونے کے پراسیس کے ہر قدم کا مشاہدہ کیا گیا۔ اس طرح برقی مقناطیسی سگنلز کے جو سیگنیچرز (signatures) حاصل ہوئے ان کی مدد سے اب کائنات میں دوسری جگہوں پر بھی بلیک ہولز میں گرتے ستاروں کا مشاہدہ ممکن ہو سکے گا کیونکہ اب ہمیں یہ معلوم ہو گیا ہے کہ اس پراسیس کے آغاز میں کیسے سگنلز بیدا ہوتے ہیں اور ہم انہیں کیسے ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں۔ امید ہے کہ اس انفارمیشن کی بدولت ہم مزید دور کہکشاؤں کے بلیک ہولز میں گرتے ہوئے ستاروں سے خارج ہونے والے سگنلز ڈیٹیکٹ کر کے مزید ستاروں کے بلیک ہولز میں ضم ہونے کے پراسیس کا مشاہدہ کر پائیں گے۔
بلیک ہول کا ڈنر ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی Article by Qadeer Qureshi Dinner of the Black hole |