کینسر کی تشخیص نینو ٹیکنالوجی
سے(Identification of Cancer through Nano-Technology)
ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی
بیالوجی اور انجینیئرنگ کے اپسی تعاون سے اس بات کا امکان بڑھتا جا رہا ہے کہ ہم نینوٹیکنالوجی(Nano-Technology) کے استعمال سے کینسر(Cancer) کی تشخیص مرض کے آغاز میں ہی کر پائیں۔ اس کی ایک مثال سینتھیٹک بایومارکرز کا استعمال ہے۔ بایومارکرز انسان کے جسم میں ہونے والے حیاتیاتی تعاملات کی نشاندہی کر سکتے ہیں۔ سینتھیٹک بایومارکرز سائنس دانوں کے ایجاد کردہ مارکرز ہیں جنہیں نینوٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انسان اور دوسرے جانوروں کے جسم کے مختلف حصوں میں مختلف اور مخصوص ٹشوز ہوتے ہیں اور ان میں اگر کوئی بیماری ہو تو اس بیماری سے کچھ مخصوص کیمیائی مالیکیول پیدا ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر ہماری جلد کے خلیے ہمارے جگر کے خلیوں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور یہ دونوں ہمارے دماغ کے نیورونز سے بالکل مختلف ہیں۔ان خلیوں کے مختلف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جسم کے مختلف حصوں میں مختلف جینز ایکسپریس ہوتے ہیں جو مختلف پروٹینز بناتے ہیں۔یہ جینز کس طرح سے کنٹرول ہوتے ہیں یہ سمجھنا اس وقت بیالوجی کا سب سے بڑا چیلنج سمجھا جاتا ہے۔
جین ایکسپریشن کا کنٹرول بے حد پیچیدہ ہے لیکن ہم آہستہ آہستہ ان میکانزمز کو سمجھنے لگے ہیں جن سے یہ کنٹرول ممکن ہوتا ہے۔ اگر ہم کینسر کی بات کریں تو یوں سمجھ لیجیے کہ کینسر کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ کچھ جینز جنہیں ایکسپریس نہیں ہونا چاہیے کسی وجہ سے آن ہو جاتے ہیں اور ایکسپریس ہونے لگتے ہیں۔ چنانچہ کینسر زدہ خلیوں میں کچھ ایسی پروٹینز بننے لگتی ہیں جو کینسر سیلز کو لاتعداد کاپیاں بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ عام طور پر خلیوں میں ایک کنٹرول میکانزم ہوتا ہے جو خلیوں کی کاپیوں کی تعداد کو ایک حد سے نہیں بڑھنے دیتا۔ ہمارے ٹشوز کے نارمل خلیے نہ تو ایک حد سے زیادہ کاپیاں بناتے ہیں اور نہ ہی جسم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ لیکن کینسر کے خلیے کچھ خاص پروٹینز بنانے لگتے ہیں جنہیں اینزائمز کہا جاتا ہے اور جو ایک قینچی کی طرح مالیکیولز کو کاٹ سکتے ہیں۔یہ اینزائمز ان جینز کو خاموش کر دیتے ہیں جو خلیوں کی کاپیاں بنانے کے عمل کو سست رفتار رکھتے ہیں اور کاپیوں کی تعداد کو ایک حد سے نہیں بڑھنے دیتے۔ ہر کینسر میں یہ اینزائمز مختلف ہوتے ہیں۔
میسیچوزیٹس انسٹیٹیوٹ
آف ٹیکنالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر سنگیتا بھاٹیا کا خیال ہے کہ اگر کینسر کے خلیوں
میں بننے والے ان اینزائمز کو ڈیٹٰکٹ کیا جا سکے تو ہم کینسر کی تشخیص اس مرض کے
انتہائی آغاز میں ہی کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے انہوں نے ایک بہترین حل تلاش کیا
ہے۔ ان کی ٹیم نینو پارٹیکلز پر ایسی پروٹینز لگاتی ہے جن کو کینسر زدہ خلیوں میں
پیدا ہونے والے اینزائمز کاٹ ڈالتے ہیں۔ ان نینو پارٹیکلز کو اگر ایک صحت مند شخص
کے جسم میں داخل کیا جائے تو ان پر موجود پروٹین جوں کی توں قائم رہتی ہے اور چند
دنوں کے اندر اندر یہ تمام نینو پارٹیکلز جسم سے خارج ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر جسم
میں کہیں کینسر موجود ہو تو کینسر کے خلیوں میں بننے والے ائنزائمز ان نینو
پارٹیکلز پر موجود پروٹینز کے مالیکیولز کو کاٹ دیتے ہیں جس سے پروٹین کے یہ
مالیکیول نینوپارٹیکلز کے الگ ہو کر خون میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ انسان کے گردے اس
پروٹین کو جسم کا فضلہ سمجھ کر جسم سے الگ کر کے پیشاب کے ذریعے جسم سے خارج کر
دیتے ہیں۔ پیشاب کو ٹیسٹ کر کے ان پروٹینز کی موجودگی کو آسانی سے ڈیٹیکٹ کیا جا
سکتا ہے
چنانچہ ایک آسان سے ٹیسٹ سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کے جسم میں کینسر موجود ہے یا نہیں۔ یہ ٹیسٹ انتہائی آسان ہوتا ہے جس میں کاغذ کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو پیشاب میں ڈبو کر یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس کاغذ کا رنگ تبدیل ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر اس کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ جسم میں کہیں کینسر موجود ہے۔ یہ ٹیکنالوجی آج کل کلینیکل ٹیسٹس کی سٹیج میں ہے اور امید ہے کہ جلد ہی اس ٹیکنالوجی کے عام استعمال کی منظوری دے دی جائے گی۔ چنانچہ امید کی جا سکتی ہے کہ چند سالوں میں یہ ٹیسٹ سالانہ طبی معائنے کا حصہ بن جائے گا جس سے کینسر کی جلد تشخیص ممکن ہو جائے گی۔ اکثر کینسر اگر جلد پکڑے جائیں تو ان کا علاج ممکن ہوتا ہے اور مریض مکمل طور پر کینسر سے پاک ہو سکتا ہے۔
کینسر کی تشخیص نینو ٹیکنالوجی سے ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی Article by Qadeer Qureshi Identification of Cancer through Nano-Technology |