ستارے
کیسے بنتے ہیں؟(?How stars are formed)
تحریر: قزل انصاری
ستارے انتہائی گرم
گیسوں کے بہت بڑے گولے (Blobs of Hot Gases) ہوتے ہیں۔ ان گیسوں میں ہائیڈروجن گیس اور ہِیلیم گیس (Hydrogen &
Helium) سرِ فہرست ہوتی ہیں۔ یہ
دونوں پوری کائنات میں کثرت سے پائی جانے والی دو بڑی گیسیں ہیں۔ کائنات میں
ہائیڈروجن 75 فیصد اور ہِیلیم 24 فیصد ہے۔ باقی تمام عناصر، آکسیجن سے لے کر
یورینیم تک، اس بقیہ 1 فیصد میں شامل ہیں۔ ماہرِ فلکیات کے مطابق کائنات میں موجود
ستاروں کی تعداد 24^10 (1 کے ساتھ چوبیس صفر) کے لگ بھگ ہے۔ ہر کہکشاں میں اربوں
ستارے ہیں اور کائنات میں اربوں کہکشائیں ہیں۔ ان دونوں کی تعداد کو ضرب دینے سے
ستاروں(Stars) کی تعداد معلوم کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر کائنات میں 10 کہکشائیں
ہیں اور ہر کہکشاں میں ستاروں کی اوسط تعداد 100 ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ کائنات
میں ستاروں کی کل تعداد 1000 کے لگ بھگ ہوگی۔ اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔
ستارے حُجم کے لحاظ سے زمین جیسے سیاروں سے لاکھوں کروڑوں گُنا بڑے ہوتے ہیں۔
ہمارے سورج کے حُجم (Volume) میں 13 لاکھ زمینیں سما سکتی ہیں۔ ستارے ماس کے لحاظ سے بھی بہت
بڑے ہوتے ہیں۔ سورج کا ماس زمین کے ماس سے 333،000 گُنا زیادہ ہے۔ لیکن ہمارا سورج
ایک معمولی سا ستارہ ہے۔ کائنات میں بہت سارے ایسے ستارے بھی ہیں جن میں ہمارے
سورج جیسے کروڑوں اربوں ستارے سما سکتے ہیں۔
خلا میں گیسوں کے بہت
بڑے بڑے بادل نما اجسام ہوتے ہیں جن کو نیبولی (Nebulae) کہتے ہیں (واحد: نیبولا). یہ یونانی زبان کا ایک لفظ ہے جو کہ
دُھند یا بادل نما شے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ نیبولی کئی نوری سال وسیع ہوتے ہیں،
لیکن ان کا ماس عموماً سورج جیسے ستارے کے ماس سے سینکڑوں گُنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔
ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی 3 لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک زمینی
سال (365 دن) میں طے کرتی ہے. ایک نوری سال میں 12^10×9.5 کلومیٹر ہوتے ہیں۔ مثال
کے طور پر سورج زمین سے 8 نوری مِنٹ دُور ہے، یعنی کہ سورج کی روشنی 8 مِنٹ میں
زمین تک پہنچتی ہے۔ خلا میں گیسیں ہر جگہ موجود ہیں لیکن ان کی کثافت (Density) بہت کم ہوتی ہے۔ ستاروں
کے درمیان خلا (اِنٹرسٹیلر سپیس: Interstellar Space) کی کثافت 500,000 ایٹمز فی مکعب میٹر ہوتی ہے. اس کے مقابلے میں
ہماری فضا کی کثافت 25^10 ایٹمز فی مکعب میٹر ہے جو کہ ستاروں کے مابین خلا کی
کثافت سے 100 ارب ارب (20^10) گُنا زیادہ ہے۔ لیکن ستاروں کے درمیان خلا میں کہیں
کہیں کششِ ثقل (گریوٹی) کی وجہ سے گیسوں کی کثافت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی
جگہوں کو انٹرسٹیلر ڈسٹ کلاؤڈز (Interstellar Dust Cloud) یا صرف نیبولی کہتے ہیں۔ یہ نیبولی جیسے جیسے
خلا میں حرکت کرتے ہیں تو اپنی کششِ ثقل کی وجہ سے مزید گیسوں کو اکٹھا کرتے ہیں،
جس طرح ایک ویکیُوم کلِینر (Vacuum Cleaner) زمین پر پڑی گرد کھینچ کر اکٹھی لیتا ہے، اور اس طرح نیبولی سائز
میں بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ نیبولا کے اندر بھی کہیں کہیں گیسی مادے کی کثافت نیبولا
میں موجود باقی مقامات سے نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ نیبولا کے اندر ان مقامات کو گیس
پاکِٹس
(Gas Pockets) کہتے ہیں۔ نیبولی میں
ہائیڈروجن گیس اور ہیلیم گیس کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ اور چونکہ ستارے بھی انہیں
گیسوں سے بنے ہوتے ہیں تو ستارے نیبولی (خلائی بادلوں) کے اندر ہی جنم لیتے ہیں۔
پس ایک نیبولا ستاروں کی نرسری ہوتی ہے۔
ہمارے سورج کی کثافت
1.4 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ سورج پر سے ایک چینی
کے دانے کے برابر مواد لیں تو اس کا وزن 1.4 گرام ہوگا۔ لیکن نیبولی کی کثافت اس
سے بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ستارے بنانے کے لئے ایک نیبولا کو
اپنی کثافت بہت زیادہ بڑھانی پڑھتی ہے۔ کثافت بڑھانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک
جگہ میں مادے کی مقدار کو بڑھایا جائے۔ اگر دو اجسام کا حُجم برابر ہے لیکن ایک کا
ماس دوسرے سے زیادہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے والے جسم میں مادے کی مقدار
زیادہ ہے، جبکہ حُجم دونوں اجسام کا برابر ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ ایک ہاتھ میں
پتھر پکڑیں اور دوسرے ہاتھ میں اُسی سائز کی ایک لکڑی پکڑیں تو ظاہر سی بات ہے کہ
پتھر نسبتاً بھاری محسوس ہوگا۔ پس پتھر لکڑی سے زیادہ کثیف ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم ستارے بننے کے عمل کی طرف جائیں، فزکس کے کچھ بنیادی اُصولوں سے آشنائی لازم ہے۔ اگر آپ ان اصولوں کو سمجھ لیں گے تو آپ کے لئے آسانی ہوجائے گی۔
1۔پہلی بات تو یہ کہ اگر آپ ایک گیس کا حُجم کم کریں تو اس کا پریشر بڑھتا ہے۔پریشر بڑھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس گیس کے مالیکیولز اور ایٹمز کی آپس میں تصادم کی شرح بڑھ گئی ہے۔ تصادم کی شرح بڑھنے سے درجہ حرارت بڑھتا ہے، جس طرح آپ کے ہاتھ کا درجہ حرارت بڑھتا ہے اگر آپ تالیاں بجاتے رہیں۔ آپ کے ہاتھ کی کائینیٹک انرجی ہیٹ انرجی اور ساؤنڈ انرجی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک گیس کا حجم کم کریں تو اس کا پریشر بڑھتا ہے۔ پریشر بڑھنے سے گیس کا درجہ حرارت بڑھتا ہے. درجہ حرارت اس لئے بڑھتا ہے کیونکہ کائینیٹِک انرجی اور درجہ حرارت ایک دوسرے کے ہم متناسب ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر آپ پانی کو رُوم ٹمپریچر (Room Temperature) میں بہت زیادہ پریشر میں رکھ دیں تو وہ اُبلنا شروع ہو جائے گا۔ اور ظاہر سی بات ہے کہ اُبلتے ہوے پانی کا درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے۔2۔دوسری بات یہ کہ جب ایک گیس سُکڑتی ہے، یعنی جب اس کا حُجم کم ہوتا جاتا ہے، تو اس کی کثافت بڑھتی جاتی ہے۔ اُس گیس کے ذرّات میں خلا کم ہوتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر پتھر پانی سے زیادہ کثیف ہے کیونکہ ایک پتھر جن ایٹمز سے مل کر بنا ہے، ان ایٹمز کی مابین پانی کے ایٹمز کے مقابلے میں کم خلا ہے۔ جیسے جیسے کثافت بڑھتی ہے، ایٹمز میں خلا کم ہوتا جاتا ہے، اور اس بات کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں کہ ایک ایٹم دوسرے ایٹم سے ٹکرائے گا۔ سُکڑنے سے پہلے گیس کے ایٹمز دُور دُور تھے۔ ایک ایٹم کے دوسرے ایٹم سے تصادم کے امکانات نسبتاً کم تھے۔ جیسے جیسے گیس سُکڑتی ہے، یہ شرح بڑھتی جاتی ہے۔ پس اس گیس کے جسم کا درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے۔
3۔تیسری اہم بات یہ ہے کہ اگر ایک جسم اپنے محور کے گِرد گردش کر رہا ہو تو اس کے گردشی محوَر کے قریب جتنا زیادہ مواد اکٹھا ہوگا، اس جسم کی اپنے محور کے گِرد گُھومنے کی رفتار اتنی ہی تیز ہوتی جائے گی۔ فِزکس میں اس کو بقائے زاویائی معیارِ حرکت کا قانون کہتے ہیں (Law of Conservation of Angular Momentum). فرض کریں کہ آپ کے ہاتھ میں گیس کا ایک گولا ہے جو کہ گُھوم رہا ہے۔ یہ گیس کا گولا جس محوَر کے گِرد گُھوم رہا ہے وہ اس کے مرکز میں سے گُزرتا ہے۔ اگر یہ گیس کا گُھومتا ہُوا گولا سُکڑنا شروع ہوجائے تو اس کے ماس کی ایک زیادہ مقدار اس کے گردشی محور کے قریب آجائے گی، جس وجہ سے اس کی گُھومنے کی رفتار زیادہ ہو جائے گی. آپ نے اکثر مُشاہدہ کیا ہوگا کہ جب ایک فِگر سکیٹر (Figure Skater) گُھومنے کے دوران اپنے بازو اپنے گردشی محور کے قریب لاتی ہے تو اس کے گھومنے کی رفتار بڑھ جاتی ہے. یہاں بقائے زاویائی معیارِ حرکت کا اصول لاگو ہورہا ہے۔
4۔ہر وہ چیز جو ماس رکھتی ہے، وہ ماس رکھنے والے کسی بھی دوسرے جسم پر کششِ ثقل یعنی کہ گریوٹیشنل فورس لگاتی ہے۔ اگر ایک جسم میں تمام ایٹمز برابر ماس رکھتے ہوں اور ایک دوسرے سے مساوی فاصلے پر ہوں تو وہ ایک دوسری کی گریویٹیشنل فورس کو منسوخ کردیں گے۔ ایسے جسم میں گریوٹی کی وجہ سے ایٹمز کی حرکت صفر رہے گی۔ لیکن جب ماس کسی جگہ زیادہ ہو جائے گا، یعنی جب ماس کی تقسیم یکساں اور ہموار نہیں رہے گی تو اس جگہ گریوٹی کی قوت بڑھ جائے گی۔ اور وہ باقی تمام ماس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچے گا۔ جس کے نتیجے میں اس جگہ ماس مزید بڑھے گا۔ اور وہ جسم اپنی ہی گریوٹی کی وجہ سے سُکڑنا شروع ہوجائے گا۔ اس طرح اس جسم کی کثافت اور درجہ حرارت بھی بڑھتا جائے گا۔ اور اگر وہ جسم گُھوم رہا تھا تو اس کے گُھومنے کی رفتار بھی بڑھتی جائے گی۔
چلیں اب ہماری بُنیاد
پُختہ ہوچُکی ہے۔ نیبولی جیسے جیسے خلا میں حرکت کرتے ہیں تو مزید گیسوں کو اکٹھا
کرتے ہیں جو کہ ستاروں کے مابین خلا میں موجود ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ایک نیبولا
میں ماس کی تقسیم
(Mass Distribution) یکساں (Uniform) نہیں رہتی۔ کسی جگہ ماس
زیادہ ہوجاتا ہے اور کسی جگہ کم۔ جہاں ماس زیادہ ہوتا ہے، وہاں گریوٹی زیادہ قُوّت
رکھتی ہے۔ آس پاس کی گیسیں آہستہ آہستہ اس کی طرف کِھنچی چلی آتی ہیں۔ نیبولا میں
ایسے مقامات سُکڑنے لگ پڑتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اس جگہ کی کثافت اور درجہ حرارت
بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ گُھومنے کی رفتار بھی بڑھتی جاتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ
گیسیں اتنی گرم اور کثیف ہو جاتی ہیں کہ گیس کے اس انتہائی گرم گولے میں
"نیوکلئیر فیوین" (Nuclear Fusion) شروع ہوجاتی ہے۔ اس عمل میں دو ایٹامِک نیوکلئیس
فیُوز ہو کر ایک نیا اور زیادہ ماس رکھنے والا ایٹمامِک نیوکلئیس بناتے ہیں۔ اس
عمل کو مُمکن بنانے کے لئے انتہا کے پریشر اور درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے، جو کہ
ایک ستارے کے مرکز میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ نیوکلئیر فیُویَن کے ذریعے ہی سب عناصر
بنتے ہیں۔ اس عمل کی وجہ سے بہت زیادہ روشنی اور حرارت خارج ہوتی ہے، جس کی وجہ سے
گیس کا وہ گرم گولا چمکنے لگ پڑتا ہے۔ مُبارک ہو۔ ایک نیا ستارہ جنم لے چُکا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزدتا ہے، یہ نومولود ستارہ زیادہ شِدت سے چمکتا ہے۔
سب ستارے اسی عمل سے
بنتے ہیں۔ ہمارا سورج بھی آج سے 4.6 ارب سال پہلے اسی عمل سے بنا تھا۔ اس عمل کو
مکمل ہونے میں ایک کروڑ (10 ملین) سال درکار ہوتے ہیں۔ ستارے کے بننے کے بعد بقیہ
مواد سے سیارے جنم لیتے ہیں۔ یہ بقیہ مواد اس نومولود ستارے کے گِرد ایک ڈِسک کی
شکل میں گردش کررہا ہوتا ہے۔ چونکہ جب تک ستارے کی تخلیق کا عمل مکمل ہوتا ہے، وہ
نومولود ستارہ بقائے زاویائی معیارِ حرکت کی وجہ سے تیزی سے گُھوم رہا ہوتا ہے۔ اس
کے گِرد گردوغُبار اور کثیف گیسوں کی جو ڈِسک بنتی ہے وہ بھی اتنی ہی رفتار سے اس
کے گِرد گردش کررہی ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ڈِسک اور وہ نومولود ستارہ ایک ہی
گریویٹیشنل سِسٹم
(Gravitational System) کا حِصّہ ہوتے ہیں۔ اس ڈِسک میں سے سیارے جنم لیتے ہیں، اُسی عمل
سے جس عمل سے ستارے کی تخلیق ہوتی ہے۔ زیادہ تر ماس ستارے کی تخلیق میں استعمال
ہوجاتا ہے۔ پس بقیہ ماس اس مقدار میں نہیں ہوتا جو مزید ستاروں کی تخلیق کے لئے
کافی ہو. ہی وجہ ہے کہ سیارے ستاروں سے ماس اور حُجم دونوں میں خاطر خواہ چھوٹے
ہوتے ہیں اور نیوکلئیر فیُویَن کا عمل شروع کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے
ان کی خُود کی روشنی نہیں ہوتی۔ ہماری زمین بھی اسی عمل سے بنی تھی اور یہی وجہ ہے
کہ یہ سورج کے گِرد گردش کرتی ہے۔ جب ایک ستارے میں فیوین کا عمل شروع ہوجاتا ہے
تو یہ مزید سکڑتا نہیں ہے۔ کیونکہ فیُویَن کے عمل سے باہر کی جانب ایک پریشر پیدا
ہوتا ہے جو کہ گریوٹی کے مُتضاد کام کرتا ہے۔
کائنات بہت بڑی ہے۔ پس پوری کائنات میں ہر سال 150 ارب اور ہر سیکنڈ 5000 نئے ستارے جنم لیتے ہیں۔
ستارے کیسے بنتے ہیں؟ تحریر: قزل انصاری ?Article by Qazal Ansari How stars are formed |