کائناتی حد
رفتار :کازمک سپیڈ لمٹ(Cosmic speed limit)
تحریر: ضیار قیرمان
آپ نے یہ بات لازمی سنی
ہوگی کہ کوئی شے بھی روشنی کی رفتار سے ’ تیز ‘ سفر نہیں کر سکتی ۔ اب سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کیا یہ بات سچ ہے ؟ اس کا جواب دینے سے قبل ہمیں اس بات کا مفہوم
واضح کرنے کی ضرورت ہے جب ماہرین کہتے ہیں کہ کوئی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر
نہیں کر سکتی وہ دراصل کائنات کی حد رفتار کی بات کرتے ہیں جو کہ کازیلیٹی کی
رفتار ہے ۔ اسے روشنی کی رفتار کی بجائے کازیلیٹی کی رفتار یا کائناتی حد رفتار
کہا جائے تو مناسب ہے۔ جو ماہرین ہیں وہ دوسروں کی آسانی کے لیے اور تاریخی لحاظ
سے ”روشنی کی رفتار سے تیز “ کہہ
دیتے ہیں اور اس سے کچھ مغالطے بھی جنم لیتے ہیں ۔ مگر ایسا کہنا قطعی غلط نہیں ہے
۔یہ بات بہت ہی سادہ ہے کائناتی حد رفتار(Cosmic speed limit) سے تیز آپ معلومات کو نہ بھیج سکتے ہیں
اور نہ ہی اس سے تیز موصول کر سکتے ہیں اگر کوئی چیز کسی وجہ سے ہو رہی ہے۔ تو اس
کا اثر ہمیں محدود رفتار سے ہی دیکھنے کو ملے گا مثال کے طور پر آپ ٹارچ روشن کرتے
ہیں۔ ٹارچ کی روشنی ایک محدود رفتار سے ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچے گی نیز یہاں
مزید دو اور باتیں ذہن میں رکھنی ضروری ہیں ۔
۱۔
آپ انرجی کو بھی کائناتی حد رفتار سے تیز سفر نہیں کروا سکتے ۔ آپ روشنی کے ذرات
فوٹانز کو کائناتی حد رفتار کے برابر تو سفر کروا سکتے ہیں پر اس سے زیادہ نہیں ۔
اسی طرح یہ محض روشنی ہی نہیں جو c کی
رفتار پر سفر کر سکتی ہے گریوٹیشنل ویوز بھی c سے
ہی سفر کرتیں ہیں ۔
۲۔
آپ ماس رکھنے والے بنیادی ذرات کو بھی کائناتی حد رفتار سے تیز سفر نہیں کروا سکتے
بلکہ جو الیکٹران وغیرہ ہیں ان کی حد رفتار 99 فیصد ہے ۔ یہ کائناتی حد رفتار پر
سفر نہیں کرسکتے چاہے آپ جو کر لیں ان کی زیادہ سے زیادہ رفتار c کی رفتار کا 99 فیصد تک
ہوگی سو فیصد تک نہیں جا سکے گی ۔ ویسے یہ دلکش و حسین اتفاق ہے کہ روشنی کی جو
رفتار خلاء میں ہوتی ہے وہی رفتار ’کائناتی حد رفتار‘ ہے جسے ہم اپنی آسانی کے لیے
تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ کہیں گے ۔ یا
c = 3×10^8 m/s
کہیں گے۔ اب تک جو بھی
تجربات ہوئے ہیں اور جو بھی مشاہدات ہوئے ہیں سبھی سے یہی بات سامنے آئی ہے کہ
کائنات میں معلومات کو ایک مخصوص حد رفتار سے تیز نہیں بھیجا جا سکتا ۔ پر بہت سے
لوگوں کو لگتا ہے ایسی چیزیں پائی جاتیں ہیں جن سے c سے
تیز سفر ممکن ہے اور یہ تصور غلط ہے ۔ پر یہ اصل میں غلط نہیں ہے جو وہ چیزیں کہتے
ہیں وہ درج ذیل ہیں ۔
سایہ
چرنکؤ ریڈی ایشن
سپیس کا پھیلاؤ بالخصوص
انفلیشن کا دور
ٹائیکون
کوانٹم میکینیکس : بہت ہی زیادہ دوری پر ہونے والا بھوتیہ عمل
ان سبھی پر باری باری
بات ہم آخر میں کریں گے مگر اول ہمیں مزید بنیاد بنانی ہے یہاں یہ سوال پیدا ہو
سکتا ہے کہ کیا یہ کوئی اہم تصور ہے؟ میرے خیال میں تو جی ہاں یہ بہت اہم تصور ہی
ہے کہ آپ یا کوئی بندہ بشر بھی معلومات کو لامتناہی رفتار یا کائناتی حد رفتار سے
تیز سپیس کے اندر بھیج اور موصول نہیں سکتا ۔ اگر بالفرض ہم یہ مان لیں کہ ہوسکتا
ہو کہ کائنات کی کوئی حد رفتار نہیں اور لامتناہی رفتار سے ہم چیزؤں کو معلومات کو
بھیج سکتے ہیں تب کیا ہوتا؟
نہ میں ہوتا
نہ آپ ہوتے
نہ مادہ ہوتا
علت اور معلول کا تعلق
نہ ہوتا
(Cause and Effect) ۔
نہ سپیس ہوتی اور نہ ہی
ٹائم ہوتا ۔
اور اس کی اہمیت آئن سٹائن
کے نظریہ خاص اضافیت و عمومی کی وجہ سے بھی ہے جس سے ہمیں پتا چلتا ہے لازماً حد
رفتار ہوگی ۔ آئن سٹائن کو بہت اچھی طرح سے اس کی اہمیت کا علم تھا اسی لیے دس سال
کی محنت سے وہ نیوٹن کی گریوٹیشن کی جگہ ایک بہتر نظریہ دے پائے ۔ نیوٹن کا نظریہ
یہ کہتا تھا کہ آپ سگنلز (معلومات) کو لامتناہی رفتار سے بھیج سکتے ہیں ۔ اور آئن
سٹائن کے بقول ایسا ممکن نہ تھا جسے آئن سٹائن نے ثابت بھی کیا ۔
خیر!
فرض کریں دو سیارے ہیں ایک کا نام 'سیارہ ج' اور دوسرے کا نام 'سیارہ ع ' رکھ لیتے ہیں ۔ ان کے درمیان دو سو نوری سال کا فاصلہ ہے ۔ نیوٹونیئن گریوٹیشن کے مطابق 'سیارہ ج اور سیارہ ع دونوں ایک دوسرے پر قوت ( فورس ) ایک ہی لمحے میں لگاتے ہیں ۔ یعنی اگر سیارہ ج ، سیارے ع پر کشش ثقل لگاتا ہے تو سیارہ ع فورا ہی اس قوت کو محسوس کرے گا ۔ اس عمل کو ’دوری پر ہونے والا عمل یا ایکشن آیٹ ڈسٹنس کہتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کیا واقعی ایسا ہوتا ہے ؟ حالانکہ اوپر پیراگراف میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ معلومات لامتناہی رفتار سے نہیں بھیج سکتے تو سوال آتا ہے کہ یہاں مثال میں دیئے گئے سیارے پھر فوراً کیسے جان لیتے ہیں اور گریوٹیشنل تعامل کرنے لگ پڑتے ہیں کہ ان پر کشش ثقل لگ رہی ہو ؟ اس سوال کا جواب ہے انہیں نہیں پتا چلتا یعنی کشش ثقل لگنے کی رفتار لامتناہی نہیں ہوتی بلکہ محدود ہوتی ہے۔ یہ بات آئن سٹائن کو بہت اچھے سے پتا تھی اور اپنے نظریہ خاص اضافیت کو موافق رکھنے کے لیے آئن سٹائن نے اپنا نظریہ عمومی اضافیت دیا جو کہ گریوٹیشن کی اُس وقت سے لے کر اب تک کی بہتر تفہیم ہے ۔ اوپر بتائے گئے نکتے کو مزید واضح کرنے کے لیے ہم سورج کی مثال لے لیتے ہیں فرض کریں سورج اچانک سے غائب ہو جاتا ہے اور اس کی کشش ثقل بھی فرضی طور پر ختم ہو جائے تو ہمیں یہاں کتنے وقت بعد پتا چلے گا کہ سورج غائب ہوگیا ہے ؟ یہ بات تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ سورج کی روشنی ہم تک تقریباً آٹھ منٹ اور کچھ سیکنڈز تک پہنچ جاتی ہے اسی طرح اگر سورج غائب ہو جائے تب ہمیں آٹھ منٹ ایسے ہی روشنی ملتی رہے گی اور آٹھ منٹ تک ہماری زمین ایسے ہی گردش کرتی رہے گی جیسے سورج کی موجودگی میں کرتی ہے پر جب یہ آٹھ منٹ ہو جائیں گے تب زمین کو پتا چل جائے گا سورج کی کشش ثقل اب نہیں رہی اور زمین اس سے فرار ہو جائے گی اور روشنی بھی نہ مل سکے گی ۔
اب اوپر کیے گئے دعویٰ
جات جو یہ کہتے ہیں کہ روشنی سے بھی تیز رفتار سفر ممکن ہے پر بات کر لیتے ہیں ۔
یہ بات واضح رہے کہ کائنات حد رفتار کا تعلق کازیلیٹی سے ہے ۔ اجسام کیوں کہ
معلومات رکھتے ہیں آپ اور میں اور دیگر ذرات اسی لیے ماہرین آسانی کے لیے یہ کہہ
دیتے ہیں کہ ’کوئی شے روشنی کی رفتار سے تیز سفر‘ نہیں کر سکتی ۔ پر اصل میں یہ
بات ایسے ہے کہ ’ معلومات کو سپیس میں ہم 3×10^8 میٹر فی سیکنڈ سے تیز نہیں بھیج
نہیں سکتے۔ اب دعویٰ جات کی باری ہے ۔
۰ ۔ سایہ
سایہ نہ تو معلومات
رکھتا ہے نہ ہی ماس رکھتا ہے اور نہ ہی انرجی رکھتا ہے ۔ اس لیے یہ کوئی خلاف ورزی
نہ ہوئی۔
۱ ۔ چرنکؤ ریڈی ایشن
چرنکؤ ریڈی ایشنز کی
رفتار ہمیشہ اس سے کم ہوتی ہے ۔ یعنی
3×10^8m/s
سے کم رفتار ہی ہے ۔
لہذا کائناتی حد رفتار کی خلاف ورزی نہیں ہوئی ۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ روشنی کی
رفتار میڈیم میں کم ہوتی ہے اور اگر آپ اسی روشنی کی رفتار اور چرنکؤ ریڈی ایشن کی
رفتار کا موازنہ کریں میڈیم میں تو آپ کو یہی نظر آئے گا کہ چرنکؤ ریڈی ایشن تو
روشنی سے تیز سفر کررہی ہے پر وہ تیز اس لیے لگتی ہے کیوں کہ روشنی کی رفتار میں
کمی ہوتی ہے چوں کہ روشنی میڈیم میں سفر کر رہی ہوتی ہے ۔ اور ہم یہ پہلے ہی بتا
چکے ہیں کائناتی حد رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ ہے ۔ جسے چرنکؤ ریڈیشن عبور
نہیں کر پاتی ۔ لہذا غلط ثابت نہ ہوا اور نہ ہی خلاف ورزی ہوئی ۔
۲۔
انفلیشن کا دور
ہماری کائنات بہت سے
مراحل سے گزر کر یہاں پہنچی ہے ابتدائی ادوار میں انفلیشن کے دور کو قابل ذکر
سمجھا جاتا ہے ۔ اس دور میں کائنات کے پھیلنے کی رفتار روشنی سے بھی بہت تیز تھی ۔
دوسرے لفظوں میں کائنات اس رفتار تین لاکھ کلو میٹر فی سیکنڈ سے بھی بہت تیز پھیلی
۔ یہ بات ایسے ہی مانی جاتی ہے پر یہاں درج کر دی ہے ۔ پر یہ بات یاد رکھنے والی
ہے کہ ہم کائناتی حد رفتار کو ’بذات سپیس‘ پر لاگو نہیں کر سکتے اور نہ ہی کیا
جاتا ہے ۔ جو اصول ہے وہ سپیس پر نہیں ہے بلکہ سپیس کے اندر معلومات کیسے بھیجی جا
رہی ہے اس پر ہے ۔ لہذا یہاں بھی کوئی خلاف ورزی نہیں ۔
۳۔ٹائیکون
یہ ابھی فرضی ذرے ہیں
جنہیں دریافت نہیں کیا جاسکا ۔ اگر آپ اضافیت کو سمجھنے کے لیے کسی سے بہتر کتاب
کا مشورہ لیں تو وہ یقینا آپ کو جو کتابیں تجویز کرے گا اس میں
What Is Relativity? by
Jeffrey O. Bennett
کی کتاب بھی ہوگی ۔
اچھی کتاب ہے اسے پڑھنے میں برائی نہیں ۔ اس کتاب میں یہ مصنف یہ کہتے ہیں خاص
اضافیت ہم پر روشنی کی رفتار سے تیز سفر کرنے کی پابندی عائد نہیں کرتی کیوں کہ یہ
اصول وغیرہ نہیں بلکہ ایسے فرضی ذرے جنہیں ٹائیکون کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ وہ
موجود ہوں جن کی رفتار خلاء میں روشنی کی رفتار سے تیز ہے ۔ اور ہوسکتا ہے انہیں
دریافت کر لیا جائے ۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ٹائیکون ابھی تک دریافت نہیں ہوئے
اگر ہم اسی بات کو مان لیں کہ چلو یہ کوئی قانون نہیں کہ کوئی شے بھی c کی رفتار سے تیز سفر
نہیں کرتی ۔ ٹھیک ہے پھر بھی اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے کچھ بھی نہیں ثابت
ہوتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک جو بھی تجربات اور مشاہدات سامنے آئے وہ یہی
بتاتے ہیں کہ ایک حد رفتار ہے ۔ اور یہ ایک فیکٹ ہے ۔ نیل ڈیگراس ٹائیسن کہتے ہیں
یہ محض اچھا خیال نہیں بلکہ ایک قانون ہے کہ کوئی شے c کی
رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی ۔ ان کا جملہ
The Speed of light :
it's s not just a good idea, Its the Law.
~ Astrophysics for
People in a Hurry
۴۔
کوانٹم میکنیکس بہت ہی عجیب ہے آئن سٹائن نے اس سے بہت دشمنی رکھی انہیں یہ پسند
نہیں تھی ۔ ایک تو بہت سے لوگ جن میں آئن سٹائن خود بھی تھے وہ یہ اخذ کرتے تھے یہ
خاص اضافیت کے خلاف ہے ۔ یہ رویہ تشکیک کا ہے جو آگے بڑھنے کے لیے بہت ضروری ہے ہم
غلط ہو سکتے ہیں پر ہمیں صحیح ہونے کے لیے بھی ہمت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنے
نظریات دیئے جا سکیں ۔
آپ آسانی کے لیے یوں
سمجھ سکتے ہیں ایک غیر مستحکم ذرہ (unstable particle) ہے جس کا سپن صفر ہے جیسے ہی وہ ڈیکے ہوتا ہے تو اس سے دو ذرے جنم
لیتے ہیں ۔ اور وہ بہت دوری پر چلے جاتے ہیں ۔ یہاں پر دو ڈاٹر پارٹیکلز کا سپن
جمع ہو کر صفر ہونا چاہئے ۔ ہو سکتا ہے کسی ذرے کی سپن (اپ) اوپر ہو اور جب کہ
دوسرے کا نیچے (ڈاؤن ) ہو ۔ اب آپ کوانٹم میکینکس کی فطرت دیکھیں یہ بتاتی ہے جب
تک آپ سپن کی پیمائش نہیں کرتے کسی بھی ذدے کا کوئی مخصوص سپن نہیں ہوگا کافی عجیب
اور مضطرب کرنے والی تشریح ہے پر جب آپ سپن کی پیمائش کریں گے بالفرض ایک ذرے کا
اگر سپن (اپ) اوپر آیا ہے تو دوسرے ذرے کا سپن ڈاؤن ہوگا ۔ یہ چیز یہ ظاہر کر رہی
ہے اس سے معلومات لامتناہی طور پر ترسیل ممکن ہے ۔ کتنا ہی عجیب برتاؤ ہے ۔ اب اگر
سر سری دیکھا جائے تو یہ لگتا ہے کہ یہ چیز کہ آئن سٹائن کے خاص اضافیت کے نظریے
سے متصادم تھی ۔ اس مسلے کو کرنے کے لیے آئن سٹائن نے یہ تجویز کیا کہ کچھ مخفی
متغیرات ہیں جنہیں کوانٹم میکینکس کھاتے میں نہیں لا رہی ۔ یہ چیز آئن سٹائن نے دو
سائنسدانوں کے ساتھ مل کر تجویز کی تھی ۔ پر افسوس کہ مشاہدات سے یہ بات سامنے آئی
کہ کوئی مخفی متغیرات ہیں ہی نہیں ۔ پر ضروری بات یہ ہے کہ سبھی اس پر متفق ہیں کہ
انٹینگل پارٹیکلز کو بھی c کی
رفتار سے تیز معلومات کو بھیجنے اور موصول کرنے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
لہذا یہ آئن سٹائن کے نظریہ خاص اضافیت کے خلاف نہیں ہے بلکہ چیز آئن سٹائن کے خاص
اضافیت کے ساتھ موافق ہے ۔کیوں کہ کسی نے اس کا استعمال کرتے ہوئے معلومات، ماس یا
انرجی کو c سے تیز نہ کہیں بھیجا
اور نہ ہی موصول کیا ۔اس موضوع پر اور لکھنے کو بہت ہے پر!
ہم یہیں اختتام کرنا چاہیں گے۔
کائناتی حد رفتار :کازمک سپیڈ لمٹ تحریر: ضیار قیرمان Article by Ziaar Qairman Cosmic speed limit |