Article by Imran Kumbhar Mehnat ki taqseem (Labour division) Part-1 تحریر: عمران کمبھر ,Iمحنت کی تقسیم ـــــ

Iمحنت کی تقسیم(Labour division) ــــ

(عہدِ وحشت سے بربریت ــــتمدن تک)

تحریر: عمران کُمبھر

"عالمِ فطرت پر انسان کی ساری برتری کا دارومدار اس بات پر ہے  کہ ذرائع زندگی کی پیداوار میں اس نے کتنی مہارت حاصل کی ہے۔ انسان ہی ایک ایسی ہستی ہے جس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اس نے غذا کی پیداوار پر پوری قدرت حاصل کرلی ہے۔انسانی ترقی کی بڑی منزلوں کا کم و بیش براہ راست تعلق ذرائع زندگی کے وسیلوں کی توسیع کے ساتھ ہے۔"                                                                                مارگن

خاندان سماج کی بنیادی اکائی ہے اور پیداوار سماج  کی بنیادی ضرورت۔ جبکہ  سماجی پیداوار کے لیے محنت کی تقسیم بنیادی شرط ہوتی ہے۔ محنت کی تقسیم سماجی تبدیلیوں میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔خاندان کی ارتقا کے   پیچھے  سماجی پیداوار اور محنت کی تقسیم   کے عناصر کارفرما ہوتے ہیں۔ ان تینوں میں سے کسی ایک کو بھی سمجھنے کے لیے باقی دو عناصر کو سمجھنا بھی بیحد ضروری ہوتا ہے۔ آئیے ان تینوں عناصر کو انسانی  تاریخ کے تین عہدوں وحشت، بربریت اور تمدن کے  تاریخی پسمنظر میں سمجھتے ہیں۔

جب  وحشت کا دور تھا تب انسان ابھی تک قدرت کی پیدا کردا چیزوں پہ اپنا گزر بصر کرتا  تھا۔پھر اسی دور کے اندر انسان اپنی وجود کی بقا کے لیے حالات کے جبر کے نتیجے میں لاشعوری طور پر آلات    کا استعمال کرکے فطرت سے  جنگ شروع کی اور اپنی زندگی کے سرو سامان کے ساتھ اپنے دماغ میں تجریدیت کو جنما۔ انسان کے اسی عمل نے انسان کو  عالمِ حیوانی سے ارتقا پا کر عالمِ انسانی کی طرف  گامزن کیا۔یہ نسلِ انسانی کے بچپن کا دور تھا۔عہدِ وحشت ہزاروں سالوں تک محیط رہا ہو گا۔اس عہد کے متعلق بقول اینگلز کہ؛

"عہد وحشت جس میں انسان قدرت کے خزانے سے زیادہ تر وہی چیزیں لیتا تھا جو کھانے پینے کے لیے تیار ملتی تھین۔ انسان کو زیادہ تر ا یسے اوزار تیار کرتا تھا جن سے ان  چیزوں کو لینے مین آسانی ہو۔"

پھر ایک اور دور گزرا جسے مورخ بربریت  کا دور کہتے ہیں۔اس عہد کے اندر انسان نے محض قدرت کی تیارشدہ چیزوں کو اپنے اوزاروں سے حاصل کرنے کے قدم کو پھلانگتے ہوئے ایک اور  قدم لیا ،وہ یہ کہ اس نے اپنے اوزاروں کو ترقی دیتے ہوئے اپنی محنت سے قدرت کی زرخیزی کوبڑھایا۔یہ اوزاروں اور اس کی قوتِ محنت کی ترقی کا قدم تھا۔ اس کے عہد کے متعلق اینگلز کہتے ہیں؛

"عہد بربریت جس میں انسان نے مویشی(Livestock) پالا اور کھیتی (Agriculture)کرنا یعنی اپنی محنت سے قدرت کی زرخیزی کو بڑھانے کا طریقہ سیکھا۔"

"انسان کی شروعاتی اجتماعی زندگی کی شکل کچھ بھی ہو مگر ایک بات تاریخ کے مطالعے سے واضع ملتی ہے کہ انسان ایک کمیونسٹی گھرانے میں رہتا تھا اور مشترکہ زندگی بصر کرتا تھا۔ اسی دور میں "محنت کی تقسیم(Labour division) محض ایک فطری چیز تھی۔ یہ تقسیم صرف مردوں اور عورتوں کے درمیاں تھی۔مرد لڑائی پر جاتے تھے، شکار کرتے تھے، مچھلی پکڑتے تھے، غذا کے لئے کچا مال لاتے تھے، اور ان کاموں کے لئے ضروری اوزار بنارے تھے۔ عورتیں گھر سنبھالتی تھیں۔ کھانا پکاتی تھیں، اور کپڑا بنتی اور سیتی تھیں۔مرد اور عورت دونوں اپنے اپنے کام کے شعبے میں آپ  اپنے مالک تھے۔"

"جب مویشی پالنے(Livestock)، کھیتی اور گھریلو دستکاری غرضیکہ سبھی شاخؤں میں پیداوار بڑھی تو انسان کی قوتِ محنت (Labour Power) کو قائم رکھنے کے لیے جتنا پیدا کرنے کی ضرورت تھی، وہ اسے زیادہ پیدا کرنے لگی۔ ساتھ ہی گن یا گھریلو برادری کے یا الگ الگ خاندان کے ہر ممبر کو روز جتنا کام کرنا پڑتا تھا، اس مین اضافہ ہوگیا۔ یاس لئے ضرورت محسوص ہوئی کہ کہیں سے استعدار محنت حاصل کی جائے۔ وہ جنگ سے حاصل ہوئی۔ جنگ میں جو لوگ پکڑے جاتے تھے اب ان کو غلام بنایا جانے لگا۔ اس زمانے کے عام تاریخی حالات مین پہلی بڑی سماجی تقسیمِ محنت(Labour division)   جو ہوئی وہ محنت کی زرخیزی کو بڑھا کر یعنی دولت میں اضافہ کرکے اور پیداوار کے دائرے کو بڑھا کر لازمی طور پر اپنے پیچھے پیچھے غلامی کو لے آئی۔ محنت کی  پہلی بڑی سماجی تقسیم سے سماج کی پہلی بڑی تقسیم پیدا ہوئی۔وہ دو طبقوں میں بٹ گیا۔ایک طرف مالک تھے اور دوسری طرف غلام ، ایک طرف استحصال کرنے والے اور دوسری طرف وہ جن کا استحصال کیا جاتا تھا۔ "

"یہ وہ دور تھا جب پیداوار کے نئے زرائع یعنی پالتو جانوروں کے ریوڑ اور جھنڈ قبیلے یا گن کی مشترکہ ملکیت سے نکل کر الگ الگ خاندانوں کے سرداروں کی ملکیت بن گئے۔ "مویشی کے گلوں اور دولت کے اور دوسرے نئے سامان کی بدولت خاندان میں ایک انقلاب نمودار ہوا۔ روزی حاصل کرنا ہمیشہ مرد کا کام ہوا کرتا تھا۔ وہی ذرائع زندگی پیدا کرتا تھا اور وہی ان کا مالک ہوتا تھا۔ روزی حاصل کرنے کا نیا ذریعہ مویشی ہوتا تھا اور شروع میں ان کو پالتو بنانا اور پھر ان کی دیکھ بھال کرنا مرد کا کام تھا۔ اس لئے وہ مویشی کا مالک ہوتا  تھا۔ اور اس کے بدلے میں جو چیزیں اور غلام حصل ہوتے تھے ان کا مالک بھی وہی تھا۔ چنانچہ پیداوار سے جو کچھ فاضل پیدا ہوا اور بچ رہتا تھا وہ سب مرد کے حصے میں آیا۔ عورت کا ان کے استعمال میں حصہ تھا مگر ان کی ملکیت میں کوئی حصہ نہیں تھا۔   گلہ بان اپنی دولت کے سہارے آگے بڑھ آیا، خود  بڑی حیثیت حاصل  کرلی اور عورت کو دھکیل کر ثانوی حیثیت پر پہنچا دیا۔ اور بیچاری عورت شکایت کا ایک حرف تک زبان پر نہیں لاسکی۔ " خاندان کے اندر عورت اور مرد کے درمیان  محنت کی فطری تقسیم پہلے ئی ہو چکی تھی۔اس تقسیم محنت(Labour division) میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ، پھر بھی چونکہ خاندان کے باہر محنت کی تقسیم  (مطلب محنت کی  پہلی بڑی سماجی تقسیم  یعنی پیداوار کے  نئے ذرائع مویشی پالنے اورکھیتی  و گھریلو دستکاری)  بدل چکی تھی اس لئے اس نے پہلے کے خاندانی تعلقات کو الٹ پلٹ کردیا۔ وہی چیز جس نے عورت کو گھر کی مالکن بنایا تھا-یعنی اس کا گھریلو کام تک محدود رہنا- وہی چیز  گھر کے اندر مرد کے تسلط کی بنیاد بنی۔روزی حاصل کرنے کے لئے مرد کے کام کے مقابلے میں عورت کے گھریلو کام کی کوئی اہمیت نہیں  رہی۔ روزی حاصل کرنا ہی سب کچھ تھا۔ گھر کے کام کاج کی کوئی وقعت نہیں تھی۔یہیں پر ہمین یہ دکھائی دینے لگتا ہے کہ عورتوں کی آزادی اور مردوں کے ساتھ ان کی مساوات اس وقت  تک ناممکن ہے اور ناممکن رہے گی جب عورتیں ایک بڑے سماجی پیمانے پر پیداوار میں حصہ لے سکین گی اور جب گھریلو کاموں پر انھیں بہت کم دھیان دینا پڑے گا۔اور یہ اب محض بڑے پیمانے کی صنعت کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جو نی صرف یہ کہ عورتوں کے لئے  بہت بڑی تعداد مین پیداوار کے کام میں حصہ لینے کی گنجائش پیدا کرتی ہے بلکہ سچ پوچھیئے تو تک تو اس پر زور دیتی ہے اور اس کے علاوہ نجی گھریلو کام کو بھی ایک عام  صنعت کرتی ہے "۔گھر کے اندر مرد کے واقعی تسلط نےاس کی مطلق العنانی کے راستے سے آخری رکاوٹ بھی دور کردی ۔مادری حق کے خاتمے ، پدری حق کے رواج اور جوڑا خاندان (متعدد بیویاں  ہونے بعد بھی مرد کا کسی خاص عورت سےکم یا زیادہ عرصے کے لیے جوڑا بنا کر رہنا)سے یک زوجگی خاندان (ایک بیوی کے ساتھ رہنا) ایک طاقت بن گیا اور گن کے خلاف ایک خطرہ بن کر اٹھ کھڑا ہوا۔"

قدیم زمانے کی سب سے متمدن اور ترقی یافتہ قوم میں جہاں تک ہم پتا لگا سکے ہیں، یک زوجگی کی ابتدا اسی طرح ہوئی۔کسی اعتبار سے بھی یہ انفرادی جنسی محبت  کا نتیجہ نہیں تھی۔ اس سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ شادیاں پہلے کی طرح اب بھی  مصلحت کی بنا پر کی جاتی تھیں۔ یہ خاندان کی وہ پہلی شکل تھی جس کی بنیاد قدرت نہیں بلکہ اقتصادی حالات پر تھے۔۔۔یعنی ابتدائی مشترکہ ملکیت پر، جس کی نشونما قدرتی طور پر ہوئی تھی۔ذاتی ملکیت کی فتح،یہی اس کی بنیاد تھی۔یونان  والے اعلانیہ کہتے تھے کہ  یک زوجگی کا واحد مقصد یہ ہے کہ خاندان کےاندر مرد کی حکمرانی ہو، ایسے بچے پیدا ہوں جو صرف اس کے نطفے سے ہوں اور جو اس کے وارث بنیں۔ ان باتوں سے قطع نظر، شادی ایک بار تھی، خدا، ریاست اور اپنے آباؤ اجداد کا عائد کیا ہوا فریضہ تھی جس کو کسی طرح ادا کرنا تھا۔ایتھنز میں قانونی شادی کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اور اتنا ہی نہیں۔ مرد پر کم از کم کچھ فرائض شوہری بھی عائد کردیئے گئے تھے جن کو پورا کرنا ضروری تھا۔"

Article by Imran Kumbhar Mehnat ki taqseem (Labour division) Part-1 تحریر: عمران کمبھر ,Iمحنت کی تقسیم ـــــ
 Article by Imran Kumbhar Mehnat ki taqseem (Labour division) Part-1 تحریر: عمران کمبھر ,Iمحنت کی تقسیم ـــــ

جدید تر اس سے پرانی