کووڈ 19 ویکسین- لگوائیں یا نہیں؟ تحریر: ڈاکٹر پیجمان رحیمین(PJ Rahimian) ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشیArticle by Dr. PJ Rahimian ?Covid-19 Vaccine Hesistancy Translated by Qadeer Qureshi

کووڈ 19 ویکسین- لگوائیں یا نہیں؟
(?Covid Vaccine Hesistancy)

تحریر: ڈاکٹر پیجمان رحیمین(PJ Rahimian)

ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی

(نوٹ: ڈاکٹر پیجمان رحیمین ایک ایرانی نژاد پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں جو مائیکروبیالوجی (Microbiology) اور مالیکیولر ڈائگونسٹکس (Molecular diagnostics) پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر پیجوان نیویارک میں ایک میڈیکل کمپنی میں سینئر سائنٹسٹ کے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کا ٹائٹل لیب ڈائرکٹر کا ہے اور ان کی نگرانی میں کئی لیبارٹریز میں میڈیکل ٹیسٹنگ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ایک امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر کے طور پر تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں اور مائیکروبیالوجی کے گریجویٹ لیول کورس پڑھا رہے ہیں۔ کووڈ 19 کی ویکسین کے بارے میں یہ آرٹیکل ڈاکٹر پیجمان رحیمین نے تحریر کیا ہے۔)

کووڈ19 کی ویکسین(Covid-19 Vaccine):

امریکی حکام نے فائزر کمپنی کی تیار کردہ کووڈ 19 کی ویکسین(Covid-19 Vaccine)

 کی ہنگامی بنیادوں پر منظوری دے دی ہے۔ایک دوسری ویکسین (جو کہ موڈرنا کمپنی نے تیار کی ہے) کی منظوری بھی جلد ہی دے دی جائے گی۔یہ جدید طبی ٹیکنالوجی کا انتہائی شاندار کارنامہ ہے کہ دس ماہ کے قلیل عرصے میں کئی کمپنیوں نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کر لی ہے۔ اب اس بات کا امکان بہت زیادہ ہو گیا ہے کہ چند ماہ میں ہم اپنی معمول کی سرگرمیاں بحال کر سکیں گے۔

چونکہ یہ ویکسین بالکل نئی ہے اور انتہائی مختصر عرصے میں تیار کی گئی ہے اس لیے کچھ لوگوں کو اس ویکسین کے لگوانے کے معاملے میں کچھ تحفظات ہیں جن کی وضاحت ضروری ہے۔اس آرٹیکل میں اس ویکسین سے متعلق کچھ معلومات دی جا رہیں ہیں۔مجھے امید ہے کہ اس آرٹیکل سے سائنسی طریقہ کار اور کووڈ 19 کی ویکسین پر لوگوں کے اعتماد میں اضافہ ہو گا۔

کیا میں خود ویکسین لگواؤں گا؟

ایک لیب ڈائرکٹر کی حیثیت سے میں کئی میڈیکل لیبارٹریز میں ٹیسٹنگ کی نگرانی کرتا ہوں۔ مجھے غالباً دسمبر 2020 کے خاتمے سے پہلے پہلے ہی یہ ویکسین لگوانے کا موقع ملے گا۔ اور میری یہ کوشش ہو گی کہ جس قدر جلد ممکن ہو میں یہ ویکسین لگوا لوںلیکن یہ ویکسین بالکل نئی ہے، اسے جس قدر مختصر عرصے میں تیار کیا گیا ہے وہ ایک ریکارڈ ہے۔ تو کیا میں اس ویکسین کے محفوظ ہونے سے متعلق فکرمند نہیں ہوں؟ جی نہیں بالکل نہیں۔ مجھے اس ویکسین کے محفوظ ہونے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کسی بھی اور ویکسین یا دوا کے محفوظ ہونے کا۔ اس اعتماد کی کیا وجہ ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

کووڈ-19 کی ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟

کووڈ-19 کی ویکسین(Covid-19 Vaccine) ایک mRNA ویکسین ہے۔ زیادہ تر ویکسینز روایتی طور پر یا تو کمزور شدہ وائرس پر مشتمل ہوتی ہیں (جسے attenuated virus کہا جاتا ہے) یا پھر ناکارہ وائرس استعمال کرتی ہیں تاکہ ویکسین سے بیماری نہ پھیلے لیکن جسم کا مدافعتی نظام اس وائرس کو پہچاننے کے قابل ہو جائے۔بعض اوقات وائرس کے خول کو توڑ کر اس کا ایک حصہ یعنی وائرس کی ایک پروٹین کو بھی ویکسین کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن کووڈ-19 کی ویکسین ان سب سے مختلف ہے۔ اس ویکسین میں وہ mRNA یعنی میسینجر آر این اے استعمال ہوتا ہے جو وائرس کی 'سپائک' یعنی وائرس کی باڈی پر ابھرے ہوئے کانٹے نما سٹرکچر کی پروٹینز کو تشکیل دیتا ہے۔اس mRNA کی بدولت آپ کا جسم خود وہ پروٹینز پیدا کرتا ہے جو وائرس کے خول پر موجود ہوتی ہے۔ اگر آپ کورونا وائرس کے حملے کا شکار ہوں تو وائرس آپ کے جسم کے خلیوں کو یرغمال بنا کر ان کے کاپی بنانے کے سسٹم کو استعمال کر کے اپنی کاپیاں بنانے لگتی ہے۔ اس کے بعد یہ خلیے پھٹ کر ضائع ہو جاتے ہیں اور وائرس کی ہزاروں کاپیاں جسم میں پھیل جاتی ہیں۔ کورونا ویکسین آپ کے خلیوں کو تباہ نہیں کرتی بلکہ انہیں صرف وہ پروٹین بنانے کی ہدایات دیتی ہے جو وائرس میں موجود ہوتی ہے۔ جب جسم میں یہ پروٹین بنتی ہے تو جسم کا مدافعتی نظام اس پروٹین کے خلاف اینٹی باڈیز بنانے لگتا ہے لیکن اس عمل کے دوران انسان بیمار نہیں ہوتا۔ گویا اس ویکسین سے کووڈ-19 کی بیماری لگ جانا اصولاً ناممکن ہے۔

اگر اس ویکسین کے لگوانے کے بعد آپ کے جسم میں کبھی کورونا وائرس داخل ہو جائے تو ہمارا مدافعتی نظام اس وائرس کی سپائکس پر موجود پروٹین کو پہچان کر فوراً وہ اینٹی باڈیز کثرت سے پیدا کرنے لگتا ہے جو ویکسین کی بدولت بنانا سیکھ چکا ہے۔ یہ اینٹی باڈیز فوراً وائرس کو تباہ کر دیتی ہیں اس لیے یہ وائرس اب آپ کو بیمار کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ کووڈ-19 کی ویکسین فیز تھری ٹرائلز میں 95 فیصد تک پر اثر ثابت ہوئی ہے جو اکثر ویکسینز کے اثر پذیری سے کہیں زیادہ ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ یہ ویکسین تین چار ہفتوں کے وقفے سے دو خوارکوں کی صورت میں لینا ہوتی ہے۔

کیا نئی ہونے کی وجہ سے یہ ویکسین قابل اعتماد ہے؟

مجھے ذاتی طور پر اس ویکسین میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی جس سے اس پر اعتماد میں کمی ہو۔ میسینجر آر این اے کی ٹیکنالوجی نئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ایک عرصے سے کینسر کی ریسرچ میں استعمال ہوتی آ رہی ہے۔ ریسرچرز ایک عرصے سے میسینجر آر این اے پر مشتمل پراڈکٹس ڈیزائن کر رہے ہیں جو کینسر کے خلیوں میں پائی جانے والی مخصوص پروٹینز کو پہچان کر ان خلیوں کو جسم کے مدافعتی نظام کا ٹارگٹ بنا سکیں۔ اس صورت میں ہم ان پراڈکٹس کو ویکسین نہیں کہتے کیونکہ یہ آپ کو کسی بیماری سے بچانے کے لیے ڈیزائن نہیں کیے گئے بلکہ پہلے سے موجود بیماری کو ختم کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ایسے پراڈکٹس بکثرت استعمال نہین ہوتے کیونکہ انہیں مخصوص مریضوں کے کینسر کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ ٹیکنالوجی ایک عرصے سے موجود ہے اور ہم اس کی کارکردگی سے بخوبی واقف ہیں۔

ایک عرصے سے اس ٹیکنالوجی کو مختلف قسم کی کورونا وائرسز کے خلاف دفاع کے لیے استعمال کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن چونکہ ابھی تک (یعنی 2019 تک) کورونا وائرس کسی پینڈیمک کا باعث نہیں بنی تھی اس لیے اس کام کے لیے حکومتی اداروں سے فنڈنگ حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ mRNA خلیوں کے نیوکلیئس میں داخل نہیں ہوتا (جہاں خلیوں کا ڈی این اے ہوتا ہے)۔اس وجہ سے اس قسم کی ویکسین سے انسانی ڈی این اے کے تبدیل ہو جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

کیا اس قدر جلد تیار ہونے والی ویکسین قابل اعتبار ہے؟

اس ویکسین کو محض دس ماہ میں تیار کر لیا گیا ہے۔کیا اس قدر تیز رفتاری سے ویکسین بنانے میں جلد بازی دکھائی گئی یا حفاظتی پروٹوکولز کو نظر انداز کیا گیا؟ نہیں، بالکل نہیں۔ البتہ اس ریسرچ کو حکومتی اداروں میں موجود سرخ فیتے کی وجہ سے ہونے والی تاخیر کا نشانہ نہیں بننے دیا گیا۔اس پراجیکٹ کے آغاز سے ہی اس ریسرچ کے لیے مناسب فنڈنگ اور ٹیکنالوجی فراہم کی گئی۔

چین کی حکومت نے جنوری 2020 میں اس وائرس کا مکمل جینوم ڈی کوڈ کر کے تمام سائنس دانوں کے لیے اوپن کر دیا تھا۔ اسی دن سے ویکسین کی تیاری کا کام بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ اس وقت یہ وباء ابھی امریکہ پہنچی بھی نہیں تھی۔چونکہ mRNA کی ٹیکنالوجی پہلے سے موجود تھی اس لیے اس ویکسین کا ڈیزائن صرف دو ماہ میں مکمل ہو گیا تھا اور مارج میں ویکسین کے سیمپلز تیار ہو چکے تھے۔ عام طور پر فیز 1 کے ٹرائلز (یعنی لوگوں پر ویکسین کو استعمال کرنے کے تجربات) کی منظوری حاصل کرنے کے لیے سائنس دانوں کی ایک لمبی لائن ہوتی ہے جنہیں کئی ماہ تک اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہنگامی حالات کی وجہ سے کووڈ کی ویکسین(Covid-19 Vaccine) کے ٹرائلز کے کاغذات کو فوراً ہی حکام کے سامنے پیش کر دیا گیا اور حکام نے فوراً ہی ٹرائلز کی منظوری بھی دے دی۔ فیز 1، فیز2، اور فیز 3 کے کل ٹرائلز کو ملا کر اس ویکسین کو 37 ہزار سے زیادہ افراد پر ٹیسٹ کیا گیا۔ یہ تمام ٹرائلز ڈبل بلائنڈ ٹرائلز تھے یعنی اس میں مزید 37 ہزار افراد کو شامل کیا گیا جنہیں ویکسین کے بجائے پلاسیبو (یعنی ایسا پانی جس میں کوئی دوا موجود نہ ہو) کے انجکشن لگائے گئے۔کنٹرول گروپ (یعنی وہ صارفین جنیہں پلاسیبو دوا دی گئی) کے مقابلے میں ویکسین لگوانے والوں میں کووڈ-19 کی بیماری میں 95 فیصد کمی رہی۔ اب تک (یعنی پچھلی چند دہائیوں میں) مختلف بیماریوں کی روک تھام کے لیے جتنی بھی ویکسینز منظوری کے لیے پیش کی گئیں، ان کے ٹرائلز میں اتنے لوگ شامل نہیں تھے جتنے کووڈ 19 کے ٹرائل میں شامل تھے۔

کیا اس ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس خطرناک ہیں؟

کیا میں اس بات سے پریشان نہیں ہوں کہ اس ویکسین کی منظوری دے دی گئی ہے لیکن اس کے ممکنہ سائیڈ ایفیکٹس کا ہمیں علم نہیں ہے؟ نہیں میں اس ویکسین کے سائیڈ ایفیکٹس کے بارے میں بالکل فکرمند نہیں ہوں۔ ہم کئی دہائیوں سے ویکسینز بنا رہے ہیں۔ ویکسین کی ایک، دو، یا تین خوراکیں دی جاتی ہیں اور اس کے سائیڈ ایفیکٹ چھ ہفتے کے اندر اندر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ باقی ویکسین کی طرح اس ویکسین کے بھی سائیڈ ایفیکٹس دیکھے گئے ہیں جو کہ معمولی ہیں مثلاً انجکشن کے مقام پر سوزش، ہلکا بخار، جسم میں درد وغیرہ۔ اس سے زیادہ سیریس سائیڈ ایفیکٹ شاذ و نادر ہوتے ہیں اور اگر کوئی سیریس سائیڈ ایفیکٹ ہو تو وہ پہلے چند دنوں میں ہی ظاہر ہو جاتے ہیں۔

مجھ جیسے 39 سالہ عمر کے شخص کو اگر کووڈ 19 ہو جائے تو اس بیماری سے میرے مرنے کا امکان تین لاکھ میں ایک ہے۔ اگر اس مرض سے میری موت نہ ہو تو پھر پھیپھڑوں کو پہنچنے والے نقصان کی وجہ سے یا بیماری کے دوسرے سائیڈ ایفیکٹس کی وجہ سے عمر بھر کی معذوری ممکن ہے۔ ویکسینز صحت مند افراد کو دی جاتی ہیں (یعنی بیمار ہونے سے پہلے دی جاتی ہیں۔ بیمار افراد کو ویکسین کی ضرورت نہیں رہتی)۔ اگر مجھے یہ ویکسین لگ جائے اور اس ویکسین کی وجہ سے میرے جسم میں کووڈ کے خلاف مزاحمت پیدا ہو جائے تو اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ مجھے کووڈ نہیں ہو گا۔ یعنی کووڈ سے میرے مرنے کا امکان کم وبیش صفر ہو جائے گا۔ اس کے برعکس کسی سیریس سائیڈ ایفیکٹ کا خطرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابھی تک 37 ہزار افراد میں سے کسی ایک میں بھی کسی قسم کے سیریس سائیڈ ایفکٹ کی کوئی رپورٹ نہیں آئی

اگلے چند ہفتوں میں یہ ویکسین ترجیحی بنیادوں پر میڈیکل فیلڈ سے وابستہ لوگوں (ڈاکٹروں، نرسوں، لیب ٹیکنیشنز وغیرہ جو ہسپتالوں میں کووڈ کے مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں) اور نرسنگ ہومز کے رہنے والوں (جہاں صرف ادھیڑ عمر کے لوگ رہتے ہیں) کو دی جائے گی۔ صحت مند، نوجوان لوگوں کی باری غالباً دو تین ماہ میں آئے گی۔ تب تک کئی ملین لوگوں کو یہ ویکسین لگ چکی ہو گی اور اگر اس ویکسین سے کسی کو سیریس سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں تو وہ اس وقت تک سامنے آ چکے ہوں گے۔

ایک تجربہ کار سائنس دان کی حیثیت سے جس نے اپنا تمام پروفیشنل کیریئر میڈٰیکل ریسرچ لیبز میں گذارا ہے، میری آپ سے درخواست ہے کہ جونہی آپ کو موقع ملے آپ کووڈ کی ویکسین ضرور لگوائیے۔ اس میں آپ کی بھلائی ہے، آپ کے گھر والوں کی بھلائی ہے، ان لوگوں کی بھلائی ہے جن کا مدافعتی نظام کسی بیماری کی وجہ سے کمزور ہو چکا ہے، سکول کے بچوں کی بھلائی ہے، پوری قوم کی بھلائی ہے۔ ملک کی معیشت کو جلد از جلد بحال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس وباء کا جلد از جلد خاتمہ ہو سکے۔ اس وبا کو ختم کرنے کا سب سے موثر طریقہ کووڈ کی ویکسین لگوانا ہے۔ یقین مانیے جب یہ ویکسین مجھے میسر ہو گی تو میں ویکسین لگوانے والوں کی لائن میں سب سے پہلے موجود ہوں گا۔

براہِ کرم یہ انفارمیشن جس قدر زیادہ پھیلا سکتے ہیں پھیلائیے۔ اس وقت دنیا ایک تو کورونا وائرس کی وبا کی لپیٹ میں ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور وبا بھی پھوٹ پڑی ہے اور وہ ہے سائنس کو رد کرنے کی وبا۔اس وقت امریکہ میں سولہ لاکھ سے زیادہ افراد اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں اور تین لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ امریکہ میں کورونا وائرس سے ہر روز ڈھائی سے تین ہزار نئی اموات ہو رہی ہیں۔ان اموات کو روکنے کا سب سے زیادہ موثر طریقہ عوام کو ویکسین لگانا ہے۔

ایک بایومیڈیکل سائنس دان کی حیثیت سے، مائیکروبیالوجی کے ٹیچر کی حیثیت سے (میں گریجویٹ لیول کے کورسز پڑھا رہا ہوں) میں کلینیکل ٹرائلز کا ڈیٹا خود پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں۔ میں نے جو سمجھا ہے وہ دیانتداری سے بیان کر دیا ہے۔ میں ویکسین کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں سے خوفزدہ نہیں ہوں جو سائنس کی اس عظیم اور شاندار کامیابی کے خلاف غلط معلومات پھیلا رہے ہیں۔

کووڈ 19 ویکسین- لگوائیں یا نہیں؟ تحریر: ڈاکٹر پیجمان رحیمین(PJ Rahimian)  ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشیArticle by Dr. PJ Rahimian ?Covid Vaccine Hesistancy Translated by Qadeer Qureshi
کووڈ 19 ویکسین- لگوائیں یا نہیں؟ تحریر: ڈاکٹر پیجمان رحیمین(PJ Rahimian)  ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشیArticle by Dr. PJ Rahimian ?Covid Vaccine Hesistancy Translated by Qadeer Qureshi 

جدید تر اس سے پرانی