صوفی
شاعر ۔حضرت سلطان العارفین حق باہو(Sufi Poet Hazrat Sultan Haq Bahu)تحریر: سفرندیم زہری
دنیا میں ان گنت انسان پیدا ہوکر دار فانی سے کوچ کرگئے اور کچھ تو رخصت ہوکر بھی لگتا نہیں کہ رخصت ہوئے ہوں اورایسےانسان دیگرانسانوں سے الگ ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ ان ہستیوں میں ایک نام حضرت سلطان العارفین حق باہو بھی ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔حضرت سلطان العارفین پنجابی شاعری کے علاوہ فارسی کےصوفی شعراکرام میں شمار کیے جاتےہیں۔جنکو ادبی حلقوں میںپانچ دریاؤں میں چھٹے دریاکے نام سے بھی پکارتے ہیں۔حضرت سلطان العارفین حق باہو پنجاب کے شہر بستی شورکوٹ میں سن 1039ہجری کوپیداہوئے۔آپکانام انکے والدہ ماجدہ بی بی راستی نے سلطان محمد باہورکھا۔آپکا سلسلہ شجرونسب امیر المومنین حضرت علی مشکل کشا شیرخدا سے ملتاہے۔آپ سلسلہ قادریہ سہروردیہ کے عظیم پیشوا سیدعبدالرحمن شاہ سے شرعی بعیت لیا۔بعیت کے وقت مرشدسےجو لینا تھا مریدنے لےلیا اورمرشد نے جو دینا وہ مرید نے لےلیا۔
حضرت سلطان العارفین (Hazrat Sultan Haq Bahu) ایک کامل مرشد منبع علم و عرفان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صوفی شاعر بھی تھے۔اگر چٕٕہ برصغیر کے صوفی شعرإ کرام میں حضرت سلطان باہو کو شامل نہ کیاجائے تو ادب کے ساتھ سوتیلی سلوک کے مترادف ہوگی۔برصغیر کے صوفی شعراء کرام میں حضرت شاہ مرشد عبدالطیف بھٹائی ، حضرت خواجہ غلام فرید، حضرت نظام الدین اولیاء، حضرت امیر خسرو، حضرت رحمن بابا ، حضرت بابا بھلےشاہ، پیر حضرت مهر علی شاہ ، شاعر مشرق علامہ اقبال اور دیگر شعرا کےکلام اور حضرت حق باهو سلطان کے کلام اور اشعار میں مقصد اور مدعا کےلحاظ سے مطابقت پائی جاتی ہے۔حضرت سلطان العارفین کے کلام ادبیات باهو کو غور سے مطالعہ کرنے سے احساس قیاس رہتا ہے کہ ان میں یقینیت کافی قریب ترین ملتی ہے۔علم تصوف کے حوالے سے سلطان العارفین کے اشعار ہمیشہ وحدانیت خدا کی جانب دلوں کو مسخر کرانے کی جانب متوجہ کراتی رہتی ہے۔
علم تصوف در اصل توحید کا دوسرا نام ہے۔سلطان العارفین(Hazrat Sultan Haq Bahu) فرماتے ہیں کہ تصوف میں دل کا پاک ہونا ضروری ہے۔ بعض لوگوں نے سلطان العارفین سمیت دیگر شعرا کےکلام کو اپنی سوچ وفکر سے مجازی عشق کے زمرے میں شمار کرتے رہتے ہیں در اصل صوفیاء کرام کی شاعری خدا کی وحدانیت اطاعت شافع محشر رحمت العالمین ساقیِ کوثر کالی کملی اور سراج المنیر امام القبلتین وسیلہ دوجہان محبوب تب المشرقین والمغربین سے عقیدت محبت اہلیبیت سے تہہ دل سے کامل محبت کا اظہار کا عقیدہ دیتے ہیں۔حضرت سلطان العارفین حق باهو کی شاعری میں مجازی عشق کےبجائے حقیقی عشقءِ خدا اور عشق رسول الله صلی الله علیه وآلہ وسلم جانب رجوع کی طرف اشاره ملتارہتا ہے۔سلطان العارفین حق باهو(Hazrat Sultan Haq Bahu) کے تقریباً 140 سے زائد تصانیف اشاعت شدہ ہیں انہوں نےباقاعدگی سے دنیاوی تعلیم کسی سے حاصل نہ کیا ۔انہیں قلمند الرحمن یا خود آموز شاعر بھی کہا جاسکتاہے۔
انکی پنجابی اشعار ابیات کی انفرادیت
یہ ہےکہ چاروں بیتوں کا آخری لفظ۔۔۔۔ھو۔۔۔۔۔پر اختتام ہوتاہے۔جس سے ایک
غنائی تاثیر کےعلاوہ روحانی فضا دل ودماغ عقل میں وجود لاتی ہے جوکہ لفظی اور
معنوی حوالے سے (باھو) کی شناخت رکھتی ہے۔انہوں نے فارسی اشعار میں ایسا کوئی
تلازم نہیں رکھا انکی فارسی اشعار شاعری میں مقطع میں تخلص بہت کم استعمال شدہ نظر
آتا ہے۔حضرت سلطان العارفین حق باهو سلطان جنکی تقریباً اکاون غزلیں تصانیف میں
نظر آتے ہیں جوکہ غزل ۔روی۔۔میں ہیں ان میں ردیف قافیہ موجود ہیں ان میں ردیف
تومتعین رہتی نظر آتی ہے مگر قافیہ کا اہتمام نہیں ۔
غزل کے کے ہرشعر کے مصرعوں میں اندرونی قافیہ سے ایسا غنائی طلسم تخلیق کیا گیاہے کہ قافیہ کی کمی محسوس تک نہیں رہتی ہے۔انکی ایک غزل کے پہلے اشعار پر نظر دوڑائیں تو ان میں قافیہ اہتمام نہیں لیکن اندرونی قوافی ترنم آس طرف دھیان جانے نہیں دیتے۔
بیا اےعشق جان سوزاں کہ من خود را تو سوزم
نہ سوزی گریقین می داں کہ من خود را بتو سوزم
اشعار کے اندرونی قافیئے غنائی تاثیر پیدا کرنے کا یہ انداز انکی فارسی کلام میں بکثرت ملتی ہے۔انہوں نے مروجہ ردیف وقافیہ استعمال نہیں کیا انہوں نے موضوع کے لحاظ سے ایسی ردیفیں تخلیق کیں جو انکے مطالب کےلیےاظہار صوفی اور مصنوی کےلیےموزوں تھیں۔انکی شاعری چاہے فارسی یا پنجابی مگر ان میں روایت پرستی کاسوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کیفیت مشاہدات کےلیے شعری اظہار کےلیے استعمال کیا اور ان میں ذاتی تجربات کاخلوص اور بیان راستی پوشیدہ اور عیاں ہیں۔جسطرح وہ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ خدا کودل میں بسانے سے پہلے دل کا دریچہ خانہ اور ریاست قلب کا صاف ہونا ضروری ہے۔
دل کالے
کولوں منہ کالا چنگا ،
جے کوئی
اس نوں جانےہو،
منہ
کالا دل اچھا ہووے،
تاں دل یات پچھانے هو،
دل کی سیاہی رکھنے سے منہ کی سیاہی رکھنے والا بہتر ہے۔ اگر کوئی اس راز کوسمجھے اگرمنہ کالا دل صاف اچھا تووہی اپنے محبوب کو پہچانتا ہے اور قدر دان بھی رہتاہے۔انسان کے کردار کاتعلق پاک صاف شفاف قلب سے ہوتا ہے۔ اگر اس شعر کی گہرائی میں صاحب طالب غوطہ زن رہیں تو یہ حضرت بلال حبشی رضہ کی مثال ایک ٹھوس مثبت ثبوت کی صورت میں تاریخ اسلام میں زندہ ہے۔
انکی ایک اور بیت کی روشنی میں وہ فرماتے ہیں؛
پڑھ پڑھ
عالم کرن تکبر،
حافظ کرن وڈیائی هو،
گلیاں
دےوچ پھرن مانے،
وتن کتاباں چائی ھو،
جتھے
ویکھن چنگا چوکھا،
اوتھے پڑھن کلام سوائی ھو،
دوہیں
جہانیں مٹھے باھو،
جنہاں کھادی ویچ کمائی هو،
وہ
فرماتے ہیں کہ؛
علماء پڑھ پڑھ کے تکبر کرتے ہیں۔اور حافظ غرور میں مبتلا ہوتے ہیں۔کوچہ کوچہ کتابیں اٹھائے نظر آتےہیں۔جہاں انکو اچھی اور زیادھ اشیاء نظر آجائیں تو وہاں بیٹھ کر کلام پڑھتے ہیں۔اےباہو جس نے اپنے اعمال بیچ کر زندگی بسرکی وھ دونوں جہانوں سے محروم ہوگیا۔حضرت سلطان العارفین حق باهو کے تصانیف کے بےشمار زبانوں میں مترجم ہوئے۔ انہی کےساتھ ساتھ میری مادری زبان براہوئی ادب کے ممتاز شاعر پیرمحمد زبیرانی نےبھی سلطان العارفین حق باهو سلطان(Hazrat Sultan Haq Bahu) کے اشعار کا متراجمہ باریک بینی سے شرف حاصل پائے ہیں۔
الف الله۔ چنبیلی نا
ماسے،
مرشد استئٹی شاغاھو،
نفی
اثبات نا دیر تننگا،
دادے گر بنداھو،
اس کےعلاوہ براہوی زبان کے شاعر عبدالصمد ساداتی بابئی نےبھی سلطان العارفین حق باهو کےبارے اشعار لکھے ہیںاور براہوی ادب کے شاعر مظلوم ملامزار بدوذئی بھی حضرت سلطان العارفین حق باهو سلطان کے اولادوں میں سے کسی ایک کے خلیفہ خاص تھے۔
صوفی شاعر ۔حضرت سلطان العارفین حق باہو تحریر: سفرندیم زہری Article by Safar Nadeem Zehri Sufi Poet Hazrat Sultan Haq Bahu |