مولانا
ابوالکلام آزاد کی زندگی کے تین ادوار (Three periods in life of Maulana Ab-o-Al Kalam Azad)تحریر: گل رحمان ہمدرد
مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کے تین ادوار ہیں۔
١۔1888سے 1912 تک
٢۔1912 سے 1927 تک
٣۔1927 سے 1958 تک
پہلا دور تعلیمی،دوسرا دور فکر کا تشکیلی دور ہے جبکہ تیسرا دور تکمیلی دور ہے یعنی فکری پختگی کا دور۔ اپنے تعلیمی سفر کے دوران وہ پہلے سرسید ،پھر شبلی اور آخر کار سید جمال الدین افغانی سے متاثر ہوگئے۔اس طرح ان کا تعلیمی سفر کامیابی سے اختتام کو پہنچتا ہے۔ اپنے دوسرے دور میں وہ ہمیں افغانی ہی کی طرح اسلامی نظام کے داعی اور اسلامی انقلاب کے ایک علمبردار کے طور پر نظر آتے ہیں۔وہ ایک طرف انگریز سرکار کے خلاف برسرپیکار رہتے ہیں اور دوسری طرف اسلام کو ایک مکمل نظام حیات قرار دیتے ہوۓ امت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔فرقہ پرستی پر تنقید،امت مسلمہ کے اتحاد کا درس،مسمانوں کے عروج و اقبال کی تمنا ،حکومت الہیہ کے قیام کی دعوت اور انقلاب کی عملی جدوجہد او اس کے لیئے حزب اللہ کے نام سے ایک جماعت اور دارلارشاد کے نام سے ایک ادارہ کا قیام اس دور کے نمایاں سنگ ہاۓ میل ہیں۔1920 کے بعد اگرچہ وہ کانگریس میں شامل ہوگئےتھے اور حکومت الہیہ کے قیام کی عملی جدوجہد انہوں نے ترک کر دی تھی لیکن پھر بھی 1927 تک کی تحریریں اور خطبات اسی دور کا تسلسل ہیں۔اگرچہ اس دوران گاہے گاہے ہمیں ایسے اشارات ملتے ہیں کہ ان کی فکر میں عظیم تغیر واقع ہونے جا رہا ہے اور وحدت ادیان کے نظریات میں ان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔تاہم یہ محض اشارات کی حد تک بات ہے۔ 28-1927 میں جونہی ان کی زندگی کا سفر چالیسویں سال میں داخل ہونے لگتاہے تو ان کی فکر کی کایا باکل پلٹ جاتی ہے۔یہیں سے ان کی فکری زندگی کا تیسرا اور آخری دور شروع ہوتا ہے جو ان کی وفات 1958 میں جاکر ختم ہوتا ہے۔اس دور میں وہ ایک قسم کے جمالیاتی وحدت الوجود (جسے وہ اپنی اصطلاح میں کائیناتِ ہستی کی وحدت یا وحدت خلقت کہتے تھے)،وحدت ادیان اور وحدت انسانیت کے نظریات کا پرچار کرتے ہوۓ نظر آتے ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس فکر پر ان کا ایقان پختہ ہوتا چلا گیا اورمذہبیات کے میدان میں وقت کے علماء کی ذہنی سطح سے وہ بہت بلند ہوگئے۔اُم القرآن اور تفسیر ترجمان القرآن اسی دور کی یاگار ہیں جس میں انہوں نے اپنے استدلال کی عمارت کو محکم دلائلفراہم کیئےہیں،بالخصوص تفسیر کے ابتدائی پانچ پاروں میں۔علاوہ ازیں اپنے خطبات و مکتوبات اور تحریرات نیز عملی لحاظ سے وہ اسی فکر کا پرچار کرتے رہے۔ایک جگہ فرماتے ہیں : ”وہ وقت اب دور نہیں جب عالمِ انسانیت مذاہبِ عالم کے اختلافات سے اُکتا کر مجبور ہوجاۓ گی کہ یا تو یک قلم مذہب ترک کردے یا تمام مذہبی صداقتوں کو جمع کردے۔میرا یقین ہے کہ جمیعتِ انسانی مذہب ترک نہیں کرسکتی۔اس لیئےناگزیر ہے کہ دوسرا طریقہ اختیار کرے۔(یعنی تمام مذہبی صداقتوں کو جمع کرنے کاراستہ اختیار کرے )“۔ (سنِ تحریر1927 ,مشمولہ تصریحاتِ آزاد,صفحہ 95 ) مولانا آزاد مزید فرماتے ہیں: ”مذاہبِ عالم کا مشترکہ حق دنیا کی عالمگیر وجدانی صداقت ہے۔“ (ایضا“ ,صفحہ 94) اسی طرح نومبر 1956 میں ایک صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد(Maulana Ab-o-Al Kalam Azad)کے نام اپنے مکتوب میں لکھا تھا کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی،معاشی و معاشرتی انقلاب برپا کرنا ہوتا ہے۔اس کے جواب میں مولانا آزاد نے فرمایا کہ: ”آپ کا یہ خیال صحیح نہیں ہے کہ انبیاء کی بعثت کا مقصد سیاسی و معاشرتی مقاصد ہیں۔انبیاء کی بعثت کا مقصد روحانی زندگی کی پاکیزگی اور معنوی نجات کا حاصل کرنا ہے۔روحانی پاکیزگی کا اثر ہماری زندگی کے تمام اعمال پر پڑتا ہے لیکن وہ اثر بالذات نہیں بالغیر ہے۔مذہب کی تعلیم کا اصل مقصود روحانی نجات ہے۔اس چیز کو سامنے رکھ کر معاملے پر غور کرنا چاہیئےورنہ سخت الجھاٶ پیدا ہوں گے“ (افادتِ آزاد ,صفحہ 196,سن تحریر نومبر 1956) برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ مذہب کے مقصدِ اولیٰ کے بارے میں صوفیاء کا موقف بھی بالکل یہی ہے۔ داراشکوہ وحدت الوجود،وحدت ادیان اور وحدت انسانیت کا علمبرار تھا ۔اس لیئے ہمارے علماء اسے ملحد سمجھتے ہیں۔لیکن ابوالکلام اس کی تعریف کرتے ہوۓ ”رعبایات سرمد“ کے دیباچہ میں 1940 میں لکھتے ہیں کہ : ”سلسلہ مغلیہ میں داراشکوہ ایک عجیب وغریب طبیعیت اور مزاج کا شخص گزرا ہے۔اس بات پر ہمیشہ ماتم کرنا چاہیئےکہ تاریخِ ہند کا قلم زیادہ تر اس کے مخالفین کے ہاتھوں میں رہا ہے۔“
مولانا ابوالکلام آزاد کی زندگی کے تین ادوار تحریر: گل رحمان ہمدردArticle by Gul Rehman Hamdard Three periods in life of Maulana Ab-o-Al Kalam Azad |