سائنسی طرز فکر(Scientific Thinking Method)
تحریر: غلام مصطفٰی (جی. ایم)
تاریخ گواہ ہے کہ ہر بااثر شخصیت، قوم اور سلطنت اپنے طرزفکر(Thinking method)، عقائد اور نظریات کے بنا پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ان تمام کا عروج اور زوال بھی اسی بنا پر ہوا ہے۔ طرزفکر سے ہی عقائد اور نظریات بنتے ہیں۔ "طرزفکر" انسان کا کسی چیز کے مطلق سوچنے اور غوروفکر کرنے کے انداز کو کہتے ہیں کہ وہ کسی چیز کو کس طرح دیکھتا ہے۔ انسانی زندگی کے ہر پہلو کیلیے مختلف طرزفکر اپنائے جاتے ہیں۔اگر ہم مذھبی پہلو کو دیکھے تو اس میں طرزفکر کی بنیاد خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہے کہ کسی بھی کام کو کرنے سے پہلے یہ سوچا جاتا ہے کہ کیا خدا کی رضا اس میں ہے یا نہیں؟اور اگر طرزفکر کی بنیاد ذاتیات پر ہو تو انسان ہر کام کو کرنے سے پہلے یہ سوچے گا کہ اس کام سے اس کے ذات کو فائدہ ہے یا نہیں،چاھے وہ کام جائز ہو یا نہیں، کوئی فرق نہیں پڑتا بس اپنے ذات کو فائدہ پہنچے۔طرزفکر مختلف بنیادوں پر ہوسکتی ہے مثلاً جذبات ، رنگ ونسل ، قبیلے یا قومیت،مذھب وغیرہ۔
طرزفکر کی جو بنیاد ہوگی اسی بنیاد پر دوسرے چیزوں اور کاموں کے کرنے یا ہونے کے مطلق سوچا جائے گا۔ اگر کوئی کام طرزفکر کی بنیاد پر پورا اتر رہاہو تو ٹھیک ورنہ غلط کہلائی گی۔ چاہے وہ کام حقیقی معنوں میں غلط ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن اس طرزفکر رکھنے والے کیلیے اچھا ہوتاہے ۔ ہر طرح کے طرزفکر رکھنے والے لوگوں کیلیے دو پہلو لازمی ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی کام ایک طرزفکر رکھنے والے کی نظر میں اچھا ہے تو دوسرے طرزفکر رکھنے والے کیلیے برا ہوگا مثلاً مسلمانوں کیلیے گائے کی قربانی باعث ثواب ہے جبکہ ہندؤں کیلیے گناہ ہے۔اگر کوئی کام کسی کیلیے اچھا ہے تو دوسرے کیلیے برا ، ایک کیلیے سچ تو دوسرے کیلیے جھوٹ ، ایک کا فائدہ تو دوسرے کا نقصان، ایک کیلیے جائز تو دوسرے کیلیے ناجائز ، کوئی مانتا ہے تو کوئی انکار کرتا ہے ۔لیکن سائنسی طرزفکر کسی ایک طبقہ کیلیے مخصوص نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اس کے اصول و قوانین کو جھٹلا سکتا ہے اور یہ موضوعاتی و جذباتی نہیں ہوتا بلکہ معروضی اور منطقی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ سائنسی طرزفکر رکھنے والے کسی مظہر یا شے کے مطالعے میں اپنی پسند ناپسند،اپنےجذبات، اپنےرنگ نسل،قبیلے یا قومیت کو دخل اندازی نہیں کرنے دیتے اور سائنسی طرزفکر اس یقین کے ساتھ ابتدا کرتا ہے کہ زیر مطالعہ شے یا مظہر کے وجود اور برتاؤ کی کوئی لازمی وجہ ہے۔مزید یہ کہ اس وجہ کو با قاعدہ مشاہدے اور باضابطہ تجربات سے دریافت کیا جا سکتاہے۔سائنسی طرزفکر کسی بیان کی صحت پر اس وقت تک یقین نہیں کرتا جب تک باقاعدہ مشاہدات اور تجربات اس کی تصدیق نہ کردیں۔ اور اپنے مطالعے کے نتائج کو بلاخوف و خطر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔وہ اپنے نتائج اور نظریات کو مزید مطالعے اور تجربات کی بناء پر رد ہونے پر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔وہ اپنے خیالات اور نظریات کو نئے مشاہداتی اور تجرباتی نتائج کی روشنی میں تبدیل کرنے کیلیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
سائنسی طرزفکر ہی کی وجہ سے سائنس دان اپنے مطالعے اور تحقیق کا دائرہ وسیع کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اور اسی وجہ سے ہر جدید سائنسی نظریہ پہلے نظریات کے مقابلے میں زیادہ ہمہ گیر نوعیت کا ہوتا ہے۔
سائنسی طرزفکر کو اپنانے کی وجہ سے سائنس دان کئی مسائل کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔جدید زندگی اور اس کے مسائل سے نمٹنے کیلیے سائنسی طرزفکر کا اپنانا نہ صرف ضروری بلکہ اب لازمی ہوگیاہے۔
سائنسی طرز فکر تحریر: غلام مصطفٰی (جی. ایم) Article by Ghulam Mustfa (G.M) Scientific Thinking Method |